AINUL-HAYAT FOUNDATION || عین الحیات فاونڈیشن

انجمن ارائه دهنده ی برنامه های گوناگون تحقیقی و تبلیغی یپرامون مسائل مذهبی تشیّع و نظام امامت بویژه حضرت صاحب الزمان(عج)

AINUL-HAYAT FOUNDATION || عین الحیات فاونڈیشن

انجمن ارائه دهنده ی برنامه های گوناگون تحقیقی و تبلیغی یپرامون مسائل مذهبی تشیّع و نظام امامت بویژه حضرت صاحب الزمان(عج)

AINUL-HAYAT FOUNDATION || عین الحیات فاونڈیشن

عین الحیات فاونڈیشن، بر آن است که با توکل بر خدای عزّ وجلّ و با عنایات انوار قرآن و معصومین علیهم السلام، برنامه های گوناگون تحقیقی و تبلیغی یپرامون مسائل مذهبی تشیّع و نظام امامت بویژه حضرت صاحب الزمان(عج) را دنبال نماید و عموم مخاطبان را به سوی نورهدایت متوجه سازد تا زیبایی و شرینی معارف ثقلین را درک کنند.

Ainul-Hayat Foundation aims to monitor and deal with various religious research programs and Tablighi on various religious issues according to the Shia Imamiyyah Sect, especially in relation to Hadhrat Sahib al-Zaman (A.S) as well as guiding and guiding the audience towards the light of conversion so that they can fully benefit from the intellectual light that is found in Thaqalaini's blessed teachings.

عین الحیات فاونڈیشن کا مقصد اللہ تعالیٰ پر توکل اور قرآن اور معصومین علیہم السلام کی عنایات کے سایہ میں مختلف مذہبی تحقیقاتی اور تبلیغی پروگراموں اور دینی مسایل کو پیش کرنا اور شیعہ مکتب فکر؛ خصوصا نظام امامت اور حضرت مہدی صاحب الزمان (عج) کی جانب لوگوں کو متوجہ کرنا اور ان حضرات کی تعلیمات کی لذت کا احساس کروانا ہے۔


بایگانی

حضرت فاطمہ زہرا (س) نور ہدایت

انجمن عین الحیات= گروه طلاب المصطفی العالمیه | يكشنبه, ۱۱ آذر ۱۴۰۳، ۱۲:۰۱ ق.ظ

حضرت فاطمہ زہرا (س) نور ہدایت

تحریر ۔ محمد علی ۔ متعلم جامعۃ المصطفی العالمیہ۔ قم ایران

 اگر ہم حضرت فاطمہ زہرا(س) کی  زندگی پر نگاہ کریں  تو ہم کو معلوم ہوجائے گاکہ ان کی پور ی زندگی ہم لوگوں کےلئے  ہدایت  ہے  چاہے ان  کی بچپنے  کی زندگی  یا ازدواجی زندگی یا مادرانہ زندگی ہو، سب ہدایت ہے۔ حضرت علی(ع) بھی بچپن سے حضرت رسول اکرم (ص) کی تربیت  میں رہے اور ان سے تعلیمات کو حاصل کرتے رہے اور آپ سے اخلاق کے  وہ سارے  درس حاصل کئے  جس اخلاق  حسنہ کی سند حضرت رسول اکرم(ص) کو اللہ نے دیا ہے۔

اسی طرح  حضرت فاطمہ زہرا (س) نے  اپنے بابا سے  علم کے زورات سے مزین  ہوتی رہیں  ۔اس طرح دونوں  الہی علوم  کومستقیم حضرت رسول خدا (ص) سے  حاصل کرتے رہے ۔تو اب ہم یہ کہہ  سکتے  ہیں حضرت رسول اکرم(ص) کی  تعلیمات  اگر  حاصل کرنا ہوتو یہی اہل بیت  ہیں  جو ہمیں بتائیں  گے کہ حضرت رسول اکرم(ص)کی تعلیمات اسلامی کیاہے،اس کے علاوہ اگر ہم نے تعلمات  اسلامی کو حاصل کرنا چاہا تو اس  میں  گمراہی  کا زیادہ احتمال پایا جاتاہے ۔لہذا فاطمہ زہرا(س) کے زندگی کے کسی پہلوپر نظر کریں تو وہ  ہمارے لئے  ایک درس زندگی ہوگا۔ مثال کے طور ان کے ازدواجی  زندگی کا ایک نمونہ پیش کروں۔

حضرت امام علی(ع)  اور حضرت فاطمہ زہرا(س) ایک دوسرے  کے مددگار تھے۔ ایک دن  دونوں  حضرت رسول خدا(ص) کی خدمت میں آئے اور کہا: آپ ہمارے گھر کے کام ہم میں تقسیم کردیں تو حضرت رسول اکرم(ص) نے فرمایا کہ گھر کے اندر کے کام فاطمہ(س) انجام دیں اور گھر کے باہر کےکام علی(ع) انجام دیں۔ حضرت فاطمہ زہرا(س) فرماتی ہیں کہ میں اس کام کی تقسیم سے بہت خوش ہوں کیونکہ باہرکے کام میرے ذمہ نہیں ہے (بحار الانوار، ج۴۳، ص81)

ظاہر سی بات ہے حضرت  فاطمہ زہر ا(س) آغوش وحی کی تربیت یافتہ ہیں وہ جانتی ہیں اگرعورت گھر سے نکل جائے گی تو بچوں کی تربیت کون کرے گا جبکہ  ماں کی آغوش ہی بچے کا سب سے پہلا مدرسہ ہے، اگر بچوں کو کسی اور کے سہارے چھوڑ دیا جاےٴ تو معلوم نہیں اس کی تربیت کیسی ہو۔ ماں ہی ہوتی ہے جو معاشرے کو ایک لائق جوان تربیت کرکے دیتی ہے۔

حضرت فاطمہ زہرا(س) نے بھی بچوں کی تربیت کی ہیں دونوں امام  ہیں دین کے محافظ  ہیں دوبیٹیاں ہے اگر وہ کسی عہدہ پر نہیں ہیں تو کیا ہوا شریکۃ الحسین ہیں۔ دین کی محافظ ہیں ولایت کی مدافع ہیں امامت کی محافظ ہیں اس معلوم ہوتا ہے کہ ماں نے کس قدر عظیم تریبت کی ہے۔

خداوندعالم ہمیں بھی سیرت فاطمہ زہرا(س) پر چلنے کی توفیق عطا فرما۔

  • انجمن عین الحیات= گروه طلاب المصطفی العالمیه

قمر بنی ہاشم حضرت اباالفضل العباس علیہ السلام کے چار منفرد مقام

انجمن عین الحیات= گروه طلاب المصطفی العالمیه | يكشنبه, ۲۴ تیر ۱۴۰۳، ۰۸:۲۷ ب.ظ

قمر بنی ہاشم حضرت اباالفضل العباس علیہ السلام کے چار منفرد مقام

تحریر: سید تعلیم رضا جعفری۔ متعلم جامعۃ المصطفی العالمیہ۔ قم ایران

مولاۓ کائنات حضرت علی علیہ السلام کے عظیم الشان بیٹے، حضرت امام حسین علیہ السلام اور جناب زینب و ام کلثوم علیہماالسلام کے بے مثال بھائی کی ولادت کا موقع پر حضرت اباالفصل العباس علیہ السلام کی کچھ اہم خصوصیات اورآپ کے اہم مقامات کا ذکر کیا جارہا ہے۔

حضرت عباس علیہ السلام ان عظیم الشان شخصیتوں میں سےہیں جن کو ہمارے معصوم اماموںؑ نے اپنے زیارت نامے میں کچھ خاص مقامات سے یاد کیا ہے اورجن کو مولا اباالفضل العباس علیہ السلام نے اپنی عملی زندگی میں دنیا کے سامنے پیش کیا ہے اور انہیں مقامات اور خصوصیات کی وجہ سے آپ دوسرے غیر معصوم شہیدوں میں سب سے ممتاز نظر آتے ہیں:

امام صادق علیہ السلام سے مروی زیارت نامے کے مختصر جملوں میں ان چار مقامات کو یوں بیان کیا گیا ہے:

"أَشْهَدُ لَکَ‏ بِالتَّسْلِیمِ‏ وَ التَّصْدِیقِ وَ الْوَفَاءِ وَ النَّصِیحَةِ لِخَلَفِ النَّبِیِّ الْمُرْسَل"

میں گواہی دیتا ہوں اے اباالفضل العباس آپ کے لئے کہ آپ یادگار نبی مرسل حضرت امام حسین[ع]، کے سامنے تسلیم، تصدیق، وفاداری اور خلوص و خیرخواہی کے مقام پر فائز تھے۔ [کتاب کامل الزیارات، ص۲۵۶]۔

یہاں ان چار مقامات کو مختصر طور پر یوں بیان کیا جا سکتا ہے:

۱۔ مقام تسلیم:

امام علی علیہ السلام کے فرمان کے مطابق "دنیا مشکلات و بلاؤں سے بھری ہوئی جگہ  کا نام ہے" لہذا ان مشکلات و بلاؤں اور مصیبتوں کے مقابلے میں کبھی انسان اللہ پر توکل کرتا ہے، کبھی صبر کرتا ہے  کبھی مقام رضا رکھتا ہے اور کبھی مقام تسلیم رکھتا ہے۔ ان تمام مقامات میں سب سے عظیم مقام "مقام تسلیم" ہوتا ہے۔ اس لئے کہ  علماء کے مطابق:

"مقام توکل میں جو کچھ اللہ انسان کے لئے مقدر کرتا ہے اس کو اپنی پسند سے بالاتر سجھتا ہے، اپنے امور میں اللہ کو خود سے بہتر وکیل و چارساز جانتا ہے لہذا اگر اس کی پسند کے خلاف اللہ کوئی حکم دیتا ہے، امر کرتا ہے تو اسے مان لیتا ہے"۔

"مقام توکل سے بڑھ کر مقام رضا ہوتا ہے اس میں انسان خدا کے ارادے و خوشنودی کو ہی سب کچھ سمجھتا ہے اور خدا کی پسند کو اپنے لئے پسند کرتا ہے یعنی مشکلات کے مقابلے میں کبھی نا رضایتی کا اظہار نہیں کرتا ہے کامل طور پر صبر و تحمل کرتا ہے۔ خدا کے ارادے اور پسند میں اپنے ارادے اور پسند کو فنا کردیتا ہے"۔

لیکن مقام تسلیم ان دونوں سے بڑھ کر ہے مقام تسلیم وہ ہوتا ہے جہاں انسان اپنے آپ کو کچھ نہیں سمجھتا ہے، ہر چیز کو مولا کے حوالے کردیتا ہے یہاں اپنے ارادے یا ارادے کے خلاف ہونےیا اسی طرح اپنی پسند یا ناپسند کا سوال ہی نہیں ہوتا ہے کہ انسان کہے کہ جو خدا نے میرے لئے ارادہ کیا یا جو اس نے میرے لئے پسند کیا وہی میرا ارادہ یا میری پسندی ہے۔ بلکہ منزل تسلیم میں انسان خود کو یا جو کچھ اس کے پاس ہوتا ہے پورے وجود کو مولا کے حوالے کردیتا ہے۔

جناب عباس علمدار(ع)، دنیا کی سختیوں کے مقابلے میں مقام توکل، مقام رضا سے بڑھ کر مقام تسلیم پر فائز تھے آپ نے اپنے مولا کے سامنے اپنے پورے وجود کو اس طرح تسلیم کردیا تھا کہ آپ کے اندراپنے ارادے و پسند یا خلاف ارادہ یا ناپسند کا کوئی تصور ہی نہیں تھا، بلکہ جو کچھ آپ کے لیٔے تصور کیا جاسکتا تھا وہ سب آپ نے اپنےمولا کے حوالے کردیا تھا۔

۲۔ مقام تصدیق:

مقام تسلیم کے بعد مقام تصدیق کی منزل ہوتی ہے، جو شخص مولا کے سامنے کامل طور پر تسلیم و پورے وجود کے ساتھ حاضر ہوتا ہے وہ ایسے مرحلے میں پہونچ جاتا ہے جہاں صاحب ولایت(مولا) کی سچائی و حقانیت کو جان لیتا ہے، عاشورا کے واقعہ میں بعض لوگ ایسے تھے جو امام حسین علیہ السلام کے قیام کے بارے میں سوالات کرتے تھے، اشکال کرتے تھے، اپنی رایٔ اورنظر کا اظہار کرتے تھے لیکن کسی بھی تاریخ نے بیان نہیں کیا کہ کبھی بھی جناب ابوالفضل العباس علیہ السلام نے کسی بھی مسئلے کے بارے میں کوئی سوال کیا ہو، کبھی کوئی اشکال و ایراد کیا ہو، کبھی اپنی نظر پیش کی ہو، یہ وہی مقام تصدیق تھا کہ امام جو بھی کہیں یا حکم دیں اس کو انتہائی صداقت کے ساتھ عمل میں لائیں۔

۳۔ مقام وفا:

خداوندعالم نے قرآن مجید میں مومنین کی ایک صفت یہ بیان کی ہے کہ "یہ وہ ہیں جو عہد و پیمان کے وفادار ہیں، کسی میثاق و پیمان کو توڑتے نہیں ہیں" (سورہ رعد، آیہ۲۰)۔ جناب عباس ابن علی علیہما السلام، وفاداری کے میدان میں عظیم و کامل ترین مصداق ہیں۔ اور کربلا کے میدان میں متعدد بار امام کی بیعت کو توڑنے کی بات سامنے آئی جیسے متعددبار دشمن کی طرف سے"امان نامہ" لایا گیا یا خود امام نے اپنی بیعت اٹھا لینے کی بات کہی لیکن ہمیشہ جناب عباس علیہ السلام نے یہی کہا کہ: "مولاؑ کے بعد زندہ رہنے کے لئے ساتھ چھوڑ کر چلے جانا گوارا نہیں ہے اور وہ ایسا کرکے ہرگز زندہ رہنا نہیں چاہتے ہیں" یا اسی طرح دریاۓ فرات پر قبضہ کرنے کے بعد بھی تشنہ لبوں کے احترام میں وفاداری کا عظیم نمونہ تھا کہ آپ نے پانی نہیں پیا اور پوری کوشش کی  کہ خیام تک پانی پہونچ جائے، ایک ایک کرکے دونوں ہاتھوں کو کٹوادیا۔شہید ہوگئے، پورا وجود مولاؑ کے لئے فنا کردیا لیکن وفاداری پر حرف نہیں آنے دیا اور آج آپ مقام وفا ہی کی وجہ سے زیادہ مشہور ہیں۔

۴۔ مقام خلوص و خیر خواہی:

جناب عباس علیہ السلام نے اپنی پوری زندگی، خاص طور پر کربلا کے معرکہ میں، تمام مراحل میں ولایت و امامت کے لیٔے ایک مخلص ترین سپاہی کی عملی زندگی کو پیش کیا، خاص طور پر آخری لمحات میں پانی لانے کے لئے باربار سرجھکاکر حاضر ہوجارہےتھےمعلوم تھا کہ اس وقت پانی لانے کے لیٔے جانے کا ظاہری طور پر کویٔ فایٔدہ نہیں ہے لیکن جیسے ہی امام کی اجازت ملی اپنے پورے وجود کے امام کی خواہش پر ڈور گیٔے اور امام کے حکم و اپنی ذمہ داری کو پورا کرنے  کے لیٔے اپنا وجودفنا کردیا۔ اور اس عالم میں فقط ایک ہی خواہش تھی کہ امام کا فرمان پورا ہوجائے۔

 خلاصہ یہ جناب عباس علمدار کربلاؑ کے یہ وہ چار عظیم مقام تھے جہاں غیر معصومین کو دیکھا جائے تو آپ ہی سب سے عظیم نظر آتے ہیں اور تمام شہیدوں میں ممتاز و بالاترین مقام رکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ امام سجاد علیہ السلام فرماتے ہیں کہ :

"اللہ تعالی کے نزدیک جناب عباس علیہ السلام کی وہ منزلت ہے جس کو دیکھ کر قیامت کے دن تمام شہداء  غبطہ (رشک و آرزو) کریں گے" (امالی شیخ صدوق، ص۴۶۳ )۔

مذکورہ مقامات کو پہچاننے کے بعد جناب عباس علیہ السلام سے سچی دوستی و وفاداری کا یہی تقاضا ہے کہ ہم بھی اپنے  مالک، اپنے مولا و اپنے امام وقت کی بہ نسبت تسلیم و تصدیق و وفاداری و خلوص  کی راہ میں جتنا ممکن ہو کوشش کریں۔

 

  • انجمن عین الحیات= گروه طلاب المصطفی العالمیه

مقام عید غدیر حضرات معصومین ؑ کی نظر میں(چالیس حدیثیں)

انجمن عین الحیات= گروه طلاب المصطفی العالمیه | سه شنبه, ۵ تیر ۱۴۰۳، ۰۳:۰۶ ق.ظ

مقام عید غدیر حضرات معصومین ؑکی نظر میں

(چالیس حدیثیں)

ترتیب و تنظیم: سید تعلیم رضا جعفری۔ متعلم جامعۃ المصطفی العالمیہ۔ قم ایران۔

 

1- عیدخلافت اورولایت

زید بن محمد کہتے ہیں میں امام صادقؑ کی خدمت میں حاضر ہوااور سوال کیا مولا کیامسلمانوں کےدرمیان عید فطر اور عیدقربان اور عیدجمعہ کےعلاوہ بھی کوئی عید ہے؟

آپ نےفرمایا: ہاں وہ دن ہےجس دن رسول خدانےامیرالمومنینؑ کوخلافت اورولایت کےلئےمقررفرمایا.(مصباح المجتہدص 726)

2- امت کی عظیم عید

رسول خدا نےفرمایا:میری امت کی عیدوں میں سب سےعظیم عید عید غدیرہے اور یہ وہ دن ہےجس دن خدای تعالی نےمجھےحکم دیاکہ میں اس دن اپنےبھائی علی بن ابیطالب کو پیشوااوررہبرکےعنوان سے اپنی امت میں معین کروں تاکہ ہمارے بعدلوگ علی کے ذریعہ ہدایت پاسکیں اوریہ وہ دن ہےکہ جس دن خدانےمیری امت کےلئےدین کو کامل کیااورنعمتیں تمام کیں اوراسلام کوبہ عنوان دین ان کےلئےپسندفرمایا.(امالی شیخ صدوق ص225 ح8)

3- خداکی سب سےبڑی عید

امام صادقؑ نےفرمایا:غدیرخم کا دن خداکی سب سےبڑی عید کادن ہےخدانےکسی پیغمبر کو مبعوث نہیں کیامگریہ کہ انھوں نےاس دن کوعیدقراردیااوراس دن کی عظمت کو پہچانا اورآسمان میں اس دن کوروزعہدوپیمان کےنام سے شہرت حاصل ہےاورزمین میں اس دن کو مضبوط عہد و پیمان کےدن کےنام سےیاد کیا جاتاہے۔

غدیر کادن میری امت کی سب سے با عظمت عید کادن ہےاوریہ وہ دن ہےجس دن خدائےمتعال نےمجھےحکم دیاکہ میں اپنےبھائی علی بن ابی طالب کواپنی امت میں ایک حاکم اور رہبرکےعنوان سے معین کروں تاکہ میرےبعدلوگ ان کےذریعہ ہدایت پاسکیں اوریہ وہ دن ہےکہ جس دن خدانےدین کوکامل کیااوراپنی نعمتوں کومیری امت پرتمام کردیا اوراسلام کوان کےلئے دین کےعنوان سےپسند فرمایا. (وسائل شیعہ ج5 ص222 ح5)

4- عیدولایت

امام صادق ؑسےسوال کیا گیا کیامومنین کےلئےعیدفطر،عیدقربان اورعیدجمعہ کےعلاوہ بھی کوئی عیدہے؟آپ نے فرمایا:ہاں،مومنین کےلئےان تمام عیدوں سےبھی بڑی عیدہےاوریہ وہ دن ہےجس دن امیرالمومنین کوغدیرخم میں بلندکیاگیااوررسول خدانےولایت کےمسئلےکوتمام عورتوں اورمردوں پرفرض کیا۔(وسائل شیعہ ج5 ص325 ح7)

5- روز تجدید بیعت

عماربن حریز کہتےہیں،میں اٹھارہ ذی الحجہ کوامام صادق ؑکی خدمت میں حاضرہوا تو آپ روزےسےتھے، امام نے مجھ سےفرمایا:آج کا دن بہت عظیم دن ہے،اسے خدانےعظمت بخشی ہے،اس دن مومنین کےدین کوکامل کیا،اوراپنی نعمتیں ان پرتمام کیں،اورسابقہ عہدوپیمان کی تجدیدکی ہے۔(مصباح المجتہد ص737)

6- آسمانی عید

امام رضا ؑ فرماتےہیں کہ ہمارےبابانےاپنےباباامام صادق ؑسےنقل کیاہےکہ آپ نےفرمایا:عیدکادن آسمان میں زمین سےزیادہ مشہورہےـ(مصباح المجتہد ص737)

7- بےنظیر عید

امام علیؑ نےفرمایا:آج غدیرکا دن بہت عظیم الشان دن ہےآج کےدن کووسعت حاصل ہے،رتبہ بلندہوا،خداکی دلیلیں روشن ہوئیں،واضح طورپہ پاکیزہ مقام سےخطاب کیاگیااورآج کادن دین کے کامل ہونےاورعہدوپیمان کادن ہےـ (بحارالانوار ج 97 ص116)

8- غدیر کی روشنی

امام صادق ؑنےفرمایا:غدیرخم کادن عیدفطر،عیدقربان اورجمعہ کےدنوں میں اس طرح روشن ہےجیسےچاندستاروں کےدرمیانـ(مصباح المجتہد ص۷۳۸)

9- با برکت عید

امام صادق ؑنے فرمایا:خدا کی قسم اگر لوگ غدیرخم کےدن کوحقیقی طور پرپہچان جاتے توملائکہ دن میں دس مرتبہ ان سےمصافحہ کرتےاورجنہوں نےاس دن کی معرفت حاصل کرلی ان پراس قدرخدا کی عنایتیں ہیں کہ ان کوشمار نہیں کر سکتےـ (اقبال سیدبن طاؤس ص466)

10- خداکی چار بڑی عیدوں میں سے ایک

امام صادق ؑنےفرمایا:جب قیامت برپا ہوگی یہ چاردن خداکی طرف اس قدر تیزی سےجائیں گےجیسے دلہن اپنے شوہر کے گھرجاتی ہےـعیدفطرکادن،عیدقربان کادن،عیدجمعہ کادن،عیدغدیرخم کادن۔(اقبال سیدبن طاؤس ص466)

11- پیغام ولایت کادن

رسول خداؐنےغدیرکےدن فرمایا:اےلوگو!حاضرین اورغائبین تک یہ پیغام پہونچادوجومجھ پرایمان لایااورمیری تصدیق کی اس کوعلی ؑکی ولایت کی تلقین کرتا ہوں آگاہ ہوجاؤعلیؑ کی ولایت میری ولایت ہےاورمیری ولایت خداکی ولایت ہےیہ پیغام میرے اس خدا کی طرف سےہےجس نےمجھے حکم دیاہےکہ میں تم تک یہ پیغام پہونچاؤںـ    (بحارالانوار، ج۳۵، ص۱۴۱، ح۳۷)

12-  دعوت کادن

امام صادقؑ نےفرمایا:عیدغدیروہ دن ہےجس دن رسول خدا ؐنےعلی ؑکوحاکم اوررہبر کےعنوان سےلوگوں کے درمیان بلندفرمایا،ان کےفضائل کو آشکار کیا،اوراپنےجانشین کاتعرف کرایا،اورآخرمیں خدای تعالی کاشکربجا لانے کےلئےشکرکاروزہ رکھااوریہ دن روزہ رکھنے،عبادت کرنے کھاناکھلانے،اوردینی بھائیوں سےملاقات،اورخدای مہربان کی خشنودی حاصل کرنے ،شیطان کی ناک رگڑنےکادن ہےـ(وسائل شیعہ ج12 ح327)

13- تحفے دینےکادن

امام علی ؑنے (غدیرکےدن اپنےخطبے)میں فرمایا:اس دن جب مومنین سے ملاقات کروسلام کےساتھ مصافحہ کرو،اورایک دوسرےکو تحفہ پیش کرو اورحاضرین اس قول کو غائبین تک پہونچائیں مالدار مفلسین کےپاس جائیں،قوی ضعفاء کی مدد کو جائیں ،رسول خدا نےمجھے ان باتوں کاحکم دیا ہے۔(وسائل شیعہ ج۷ ص327)

14- کفالت کادن

امام علی ؑنے فرمایا:اس کاحال کیاہوگاجوغدیرکےدن لاتعداد منومنین اورمومنات کی کفالت کاذمہ دارہوـجب کہ میں خداکی طرف سےاس کے کفراورفقرسےامان کاضامن ہوںـ(وسائل شیعہ ج۷ ص 327)

15- شکراورخوشی کادن

امام صادقؑ نےفرمایا:عیدغدیرعبادت کرنے،نمازپڑھنے،خداکاشکربجالانے،ذکرخداکرنے،اورخوشی منانےکادن ہے ـ ہماری ولایت اورہم اہلبیت کےسبب خداتم پراحسان فرماتاہے،اورمیں اس بات کوپسند کرتاہوں کہ تم اس دن روزہ رکھو۔ (وسائل شیعہ ج13 ص328)

16- نیکی کرنے کادن

امام صادقؑ سے روایت ہےکہ آپ نےفرمایا:عیدغدیرکےدن بامعرفت مومن بھائی کو ایک روپیہ دیناہزارروپیہ عطاکرنےکےبرابرہے،لہذااس دن اپنے بھائیوں پرانفاق کرواورہرمومن مرد وعورت کو شادکرو۔(مصباح المجتہد ص737)

17- خوشی کا دن

امام صادق ؑنےفرمایا:عیدغدیرکادن مسروراورخوش ہونے کادن ہے،اورنعمت خداپر شکرانے کاروزہ رکھنےکادن ہے. (وسائل شیعہ ج10 ص326 ح7)

18- تبریک وتہنیت پیش کرنےکادن

امام علیؑ نےفرمایا:عیدغدیرکےدن محفل کےبعداپنےگھروں کو واپس جاؤ،خداتم پررحمت نازل فرمائے،اپنےاہل وعیال کوشادکرو،اوراپنےبھائیوں کےساتھ نیکی کرو،خدانےیہ جونعمت تم کوعطا کی ہےاس کاشکر اداکرو،متحدہوجاؤتاکہ خداتم کومتحدرکھے،نیک رفتاری سےپیش آؤتاکہ خدا تمہارے دوستوں کی دوستی کومضبوط بنائے،ایک دوسرےکواس طرح مبارک بادپیش کروجس طرح خدانےآج کےدن دوسری تمام عیدوں سے کئ برابر اجرعطاکرکے مبارک باد پیش کی ہےکہ اس طرح کا ثواب عیدغدیر کےدن کےعلاوہ کسی اوردن کوحاصل نہیں ہےـ(بحارالانوار ج 7 ص37)

19- درود اوربرءات کادن

حسین بن راشد کہتےہیں کہ مینے امام صادق ؑسےسوال کیا،کیامسلمانوں کے یہاں ان دو عیدوں کےعلاوہ بھی کوئی عید ہے؟

آپ نےفرمایا:ہاں اس سے بڑی اور بہترین،میں نےسوال کیا وہ کون سی عید ہے؟

آپ نےفرمایا:جس دن امیرالمومنینؑ لوگوں کےحاکم اوررہنما مقرر ہوئے،

میں نےسوال کیامولامیں آپ پرقربان جاؤں اس دن ہمیں کیا کرنا چاہئے؟

آپ نےفرمایا:روزہ رکھو، محمد وال محمد ؐپر درود بھیجو،ان پر ظلم کرنے والوں سےبیزاری کااظہار کرو،اس لئے کہ گزشتہ انبیا اپنےچاہنےوالوں کو حکم دیتےتھےکہ جس دن ان کا جانشین معین ہو عید منائیں،(مصباح المجتہد680)

20- عید اوصیاء کادن

امام صادق ؑنے فرمایا:عید غدیر کے دن روزے،نماز اورمحمد وال محمدؐپہ درودکے ذریعہ خدا کو یاد کرو،اس لئے کہ رسول خداؐنےامیرالمومنین ؑسےفرمایاکہ آج کےدن عید منائیں جس طرح کہ پیمبروں نے اپنے جانشین سے فرمایا تھاکہ اس دن عید منائیں اوروہ ایسا کرتے تھےـ(وسائل شیعہ ج7 ص327 ح1)

21- رزق میں وسعت کادن

امام صادق ؑنےفرمایا:عید غدیرکےدن نیک کا بجالانااٹھارہ ماہ نیک اعمال بجالا نےکےبرابرہے اوربہترہے اس دن کثرت سے ذکرخدا اورمحمدوال محمدؐپردرودبھیجاجائےاور اپنےاہل وعیال کوشاد رکھاجائےـ(وسائل شیعہ 7: 325، ح 6)

22- رہبر کےدیدار کادن

امام ہادی ؑنے ابواسحاق سے فرمایا: غدیر کے دن رسول خدا نے اپنے بھائی علی کوبلندفرمایا، اپنےبعدہونےوالےجانشین کا لوگوں کےدرمیان تعرف کرایا، ابواسحاق کہتےہیں:میری جان آپ پرقرمان آپ نےسچ فرمایا،اسی سبب مولا آپ کی زیارت کےلئےآپ کےپاس آیاہوں،اورمیں گواہی دیتاہوں کہ آپ لوگوں پرخداکی حجت ہیںـ (وسائل شیعہ 7: 324، ح 3)

23- تکبیرکادن

امام رضا ؑنےفرمایا:جومومن غدیرکےدن کسی مومن بھائی کی زیارت کو جاتاہےخداسترنوراس کی قبرپہ نازل کرتاہے،اورہر روزسترہزارملائیکہ اس کی زیارت کو آتے ہیں اوراس کوجنت کی بشارت دیتےہیںـ (اقبال الاعمال778)

24- نیکیوں کا دن

امام صادق ؑنےفرمایا:تم کوچاہئےکہ دوسروں کےساتھ نیکی کرو،روزہرکھو،نمازپڑھو،صلئہ رحم کرو،اوردینی بھائیوں کی زیارت کر کےخداکاتقرب حاصل کرواس لئےکہ گزشتہ پیغمبروں کی یہ سنت تھی کہ وہ اپنےجانشین کاانتخاب اسی طرح کرتےتھےاوران کو اس بات کی وصیت کرتےتھےـ (مصباح المجتہد736)

25- مسجدغدیر میں نماز کادن

امام صادق ؑنےفرمایا:مسجدغدیرمیں نمازبجالانامستحب ہےاس لئےکہ رسول خدانےاسی مقام پرامیرالمومنین کاتعرف کرایااوراپناجانشین بنایا،یہ وہ مقام ہےجہاں پرخدی تعالی نےحق کوآشکار کیا۔( وسائل الشیعه 3: 549)

26- نمازغدیرکادن

امام صادق ؑنےفرمایا:جوچاہتاہےغدیرےدن کسی بھی وقت دورکعت نمازاداکرےاس کے لئےبہترہےکہ ظہرکےنزدیک اداکرےاس لئےکہ یہ وہ وقت ہےجس وقت امیر المومنین غدیرخم میں امامت کےلئے منصوب کئےگئے(جوبھی یہ عمل انجام دے)اس شخص کےمانند ہےگیاغدیرخم میں رسول خدا کے ساتھ موجودتھاـ(وسائل الشیعه 5: 225، ح 2)

27- غدیرکےروزےکادن

امام صادق ؑنےفرمایا:عیدغدیرکےدن روزہ رکھناتمام عمرروزہ رکھنےکےبرابرہےـیعنی اگرہمیشہ باحیات رہےاورروزہ رکھےاس کاثواب فقط غدیر کےدن ایک روزہ کےبرابرہےـ(وسائل الشیعه 7: 324، ح 4)

28- مبارک باد دینےاورمسکرانےکادن

ام رضاؑنےفرمایا:عیدغدیرکادن مبارک بادپیش کرنے کادن ہے،اس دن جب ایک مومن دوسرےمومن سےملاقات کرےاس طرح مبارک بادپیش کرے:اس خدا کی حمدوثناکہ جس نےہمیں امیرالمومنینؑ کی ولایت اورجانشین پیغمبرؐ ہونے کی توفیق عطافرمائیـ(اقبال الاعمال ص468)

29- پیغمبراعظمؐ اورعلیؑ کی ولایت کادن

ابوسعیدکہتےہیں:غدیر کےدن رسول خدانےحکم فرمایاکہ منادی ندادےکہ نمازکےلئےجمع ہوجاؤ بعد میں علیؑ کےہاتھ کواپنےہاتھ میں لیااوربلند کرنےکےبعدفرمایا:اےخداجس کامیں مولاہوں پس اس کے یہ علی ؑبھی مولاہیں اےخداتواس کودوست رکھ جوعلیؑ کودوست رکھےاوراس کودشمن رکھ جوعلیؑ کودشمن رکھےـ (بحارالانوار 37: 112، ح 4)

30- نمونہء حیات پیغمبر کادن

رسول خداؐنےفرمایا:جویہ چاہتاہےکہ اس کی موت اورحیات مجھ جیسی ہواوراس جنت میں ہمیشہ رہےجس کامیرےخدانےمجھ سےوعدہ کیا ہے،علیؑ کی ولایت کوانتخاب کرے،اس لئےکہ علیؑ ہرگزتم کو راہ ہدیت سےنکال کےراہ گمراہی کی طرف نہیں لےجاسکتےـ(الغدیر 10: 278)

31- پیغمبرؐاورعلی ؑکی امامت کادن

جابربن عبداللہ انصاری کہتے ہیں کہ میں نےرسول خداسےسناہےکہ علی بن ابیطالبؑ سےفرمایا:اےعلیؑ آپ میرےبعدمیرے،بھائی،وصی،وارث اورمیرےجانشین ہیں میری امت میں،میری زندگی میں بھی اورمیری وفات کےبعدبھی،تمہارادوست میرادوست اورتمہارادشمن میرادشمن ہےـ(امالی صدوق: 124، ح 5)

32- اسلام کاستون

امام باقرؑ نےفرمایا:اسلام کی عمارت پانچ ستونوں پرقائم ہے،نماز،زکوت،روزہ،حج اورولایت،اوران پانچ میں سےجس کے لئےسب سےزیادہ تاکیدہوئی ہےوہ ولایت ہےـ(کافی 2، 21، ح 8)

33- دائمی ولایت کادن

امام کاظم ؑنےفرمایا:علیؑ کی ولایت تمام پیمبروں کی کتابوں میں ثبت ہے اورکسی بھی پیمبر کو اس وقت تک پیمبری عطانہیں کی گئی جب تک کہ محمدؐ کی نبوت اورعلیؑ کی امامت کااقرار نہ کر لیاـ (سفینة البحار 2691.)

34- ولایت اورتوحید کادن

رسول خداؐنےفرمایا:علی بن ابیطالبؑ کی ولایت خداکی ولایت ہےاور علیؑ کودوست رکھناخدا کی عبادت ہےعلیؑ کی پیروی کرناواجبات الہی میں سےہے،علیؑ کادوست خداکادوست ہےاورعلیؑ کادشمن خدا کادشمن ہے،علیؑ سےجنگ کرناخداسےجنگ کرناہے،علیؑ سےصلح کرناخداسےصلح کرناہےـ (امالی شیخ صدوق32)

35- شیطان کےفریادکرنےکادن

امام باقر ؑنےاپنےوالدبزرگوارامام صادقؑ سےنقل فرماتےہیں کہ آپ نےفرمایا:خداکےدشمن نےچارمرتبہ فریادبلند کی:جس دن لعنت کا مستحق قرارپایا،جس دن جنت سےنکالا گیازمین پرآیا،جس دن رسول خدا کورسالت پرمبعوث کیاگیا،جس دن غدیر خم میں علیؑ کی ولاایت کااعلان کیاگیاـ (قرب الاسناد ص10)

36- شیطان کےمایوس ہونےکادن

رسول خدا ؐفرماتےہیں کہ خدای تعالی نےفرمایا:علی بن ابیطالبؑ کی ولایت میراقلہ ہےپس جواس لےمیں داخل ہوگیا وہ میری آگ سےبچ گیاـ (جامع الاخبار ج7 ص52)

37- جانشینی پیغمبر کادن

رسول خداؐنےفرمایا:اےعلی ؑمیں علم کاشہرہوں اورآپ اس کادروازہ ہیں کئی بھی اس میں داخل نہیں ہوسکتا مگر یہ دروازےآئے،آپ میری امت کےامام ہیں،اور میری امت پر میرےبعد میرےخلیفہ ہیں جس نےآپ کی اطاعت کی وہ کامیاب ہوا اورجس نےآپ کی نافرمانی کی وہ ناکام ہوا،آپ کو دوست رکھنےوالا فاءدے میں ہےاورآپ سے عداوت رکھنےوالا خسارےمیں ہےـ (جامع الاخبار: 52، ح 9)

38- اسلام ولایت کےسائےمیں

امام صادق ؑنےفرمایا:اسلام کی بنیادتین چیزوں پہ ہے:نماز،روزہ،اورولایت،ان میں کوئی بھی بغیرایک دوسرےکےثابت نہیں رہ سکتےـ (کافی: 2، ص 18)

39- دس ہزارشاہدین غدیر

امام صادق ؑنےفرمایا:اےحفص وہ افرادخوش بخت ہیں ان سےجس سےعلی بن ابیطالب ؑدوچار ہوئے، اس لئے کہ آپ کے پاس چالیس ہزارگواہ غدیر کے دن ہوتے ہوئےبھی غاصبین سےاپناحق نہ لےسکےجب کہ ایک عام شخص دو گواہوں کی گواہی پر اپے حق کوحاصل کرلیتاہےـ (بحار الانوار: 37، 140)

40- علیؑ مفسرقرآن

رسول خداؐنےغدیرکےدن فرمایا:علیؑ مفسرقرآن اورخدا کی طرف سےفیصلہ کرنےوالےہیں،آگاہ ہو جاؤزیدہ سےزیادہ حلال خدا اورحرام خدایہ ہےکہ میں اس کا تعرف کراؤں،اوراس کےانجام دینے اوراس سےدور رہنےکاحکم دوں اوراس کوشمار کروں،پس مجھےحکم دیاگیاہے کہ میں تم سےعہدوپیمان لوں ان کا جوعلی امیرالمومنین ؑاوران کے بعدہونے والےجانشین کےمتعلق خدا کی طرف سےلے کرآیا ہوں اسے قبول کروـ (وسایل الشیعه: 18، 142، ح 43)

 

  • انجمن عین الحیات= گروه طلاب المصطفی العالمیه

🌷 منقبت امام علی علیہ السلام میں منظوم نذرانہ عقیدت (2)🌷

انجمن عین الحیات= گروه طلاب المصطفی العالمیه | سه شنبه, ۵ تیر ۱۴۰۳، ۰۱:۵۶ ق.ظ

🌷 منقبت امام علی علیہ السلام میں منظوم نذرانہ عقیدت(2) 🌷

 

شاعر: مظاھر علی جعفری صاحب

 

لکھنے کے لیے حیدر کرار کم از کم

جبرئیل کے پر ہے مجھے درکار کم از کم

 

کرنے کے لیے مدحت شیر خدا بیاں

ھونا پڑیگا میثم تمار کم از کم

 

بدعت کہیں جو رونے کو ان کے لئے مجھے

لکھنا پڑے گا واقعہ غار کم از کم

 

شان علی ہے کیا یہ سمجھنے کے واسطے

درکار ہے سلمان کے افکار کم از کم

 

کرنے کے لیے دعویٰء دیدار خلد کا

ھونا پڑیگا پہلے سے زوار کم از کم

 

نام علی پہ بنٹتی ھے جنت ھی بھیک میں

بہلول کو لکھونگا سمجھدار کم از کم

 

شاعر: سید محمد باقر صاحب

 

روشنی کی لکیر کے پیچھے

چل جناب امیر کے پیچھے

بادشاہت ھے دونوں عالم کی

مصطفیٰ کے وزیر کے پیچھے

شاعر : شھید سید محسن نقوی

علی، جمال دو عالم، علی امام زمن

علی، وقارِ دل و خاں، علی بہارِ چمن

علی، عروجِ فصاحت، علی کمالِ سخن

علی، عرب کے اندھیروں میں حق کی پہلی کرن

 

علی ولی سے گریزاں نہ ھو خدا کے لیے

علی تو قوتِ بازو ھے مصطفیٰ کے لیے

 

علی کا نطق، "سلونی" کے آبشار کی ضو

علی کا حسن، مه و مہر میں حیات کی رو

علی ھنسے تو پہٹے دو جہاں میں صبح کی پو

علی جو چپ ھو رک جائے نبض عالم نو

 

علی رکے تو نوا خامشی میں ڈھلتی ھے 

علی چلے تو زمانے کی سانس چلتی ھے

 

 

شاعر : شھید سید محسن نقوی

علی کا فکر،شعور حیات نو کی اساس

علی کا فقر، جہاں میں تونگری کا لباس

علی کا علم، دل آگہی شکست قیاس

علی کا حلم، کرم گستری میں عدل شناس

 

بھٹک رہے ھو کہاں عاقبت گری کے لیے؟

علی کا نام ھی کافی ھے رھبری کے لیے

 

علی ہے منزل ادراک و آگہی کا نشاں

علی ھے رونق ھنگامہ ء زمان و مکاں

علی کے دم سے دمادم رواں دواں یہ جہاں

علی کے دست کرم کی کرن کراں بہ کراں

 

اگر نجات کے طالب ھو تم ابد کے لیے

 کبھی پکار کے دیکھو اسے مدد کے لیے

  • انجمن عین الحیات= گروه طلاب المصطفی العالمیه

🌷 منقبت امام علی علیہ السلام میں منظوم نذرانہ عقیدت 🌷

انجمن عین الحیات= گروه طلاب المصطفی العالمیه | سه شنبه, ۵ تیر ۱۴۰۳، ۰۱:۵۲ ق.ظ

🌷 منقبت امام علی علیہ السلام میں منظوم نذرانہ عقیدت 🌷

نتیجہ فکر: سید معظم حسین۔ متعلم جامعۃ المصطفی العالمیہ۔ قم ایران۔

قصیدہ اول:

اجالا دیں کا ہے ممنونِ آفتاب‌ ِ غدیر

بمناسبت جشن ولایت و عید غدیر خم

 

اٹھا دے مجھ پہ بھی معبود اب حجابِ غدیر

پلا دے مجھ کو بھی سلمان سی شرابِ غدیر

 

نشہ نہ اترے کبھی اس کا اے میرے اللہ

بنا دے میثم و بوذر سا ہم رکابِ غدیر

 

جوارِ حضرتِ معصومہ مل گیا مجھ کو

خدا کا شکر کہ میں بھی ہوں انتخابِ غدیر

 

اندھیرے چھٹ گئے سب جھوٹی جانشینی کے

اُفُق پہ چمکا کچھ اس طرح آفتابِ غدیر

 

اب اس کو روشنی غیروں کی نہ دکھائے کوئی

اجالا دیں کا ہے ممنونِ آفتابِ غدیر

 

یہ انتخابِ بشر ہے، وہ انتخابِ خدا

سقیفہ ہو نہیں سکتا کبھی جوابِ غدیر

 

پسِ غدیر منافق کی ساری نیند گئی

ہر ایک رات جگاتا ہے اس کو خوابِ غدیر

 

جو شیخ دیتے ہیں بڑھ بڑھ کے یوں مبارکباد

انہیں ہے خوف کہ ان پر نہ ہو عذابِ غدیر

 

یہ ملکِ شام، یہ ایران، یہ عراق و یمن

نہیں جھکائیں گے سر، یہ ہیں ہم نصابِ غدیر

 

زمانے بھر میں ہوئے ہیں بہت قیام مگر

یہ انقلاب ہے ایراں کا، انقلابِ غدیر

 

خدا سے، دینِ خدا سے، اِسے جدا نہ سمجھ

کتابِ رب کا ہی حصّہ ہے یہ کتابِ غدیر

 

قصیدہ دوم:

زحماتِ مصطفیٰ کا ثمر ہے غدیر خم

بمناسبت جشن ولایت و عید غدیر خم

 

ما فوقِ فکر و عقلِ بشر ہے غدیر خم

زُخرُف ہیں ساری چیزیں گہر ہے غدیر خم

 

تاریک زندگی میں سحر ہے غدیر خم

حق ہے اسی کی سمت جدھر ہے غدیر خم

 

بارہ مہینے دیتا ہے دنیا کو فائدے

کچھ ایسا شاندار شجر ہے غدیر خم

 

انگشتریِ دینِ محمّد کے درمیاں

نایاب و شاندار گہر ہے غدیر خم

 

نا واقفی سے جس کی ضلالت نصیب ہو

دنیا کی وہ عظیم خبر ہے غدیر خم

 

جھوٹی خلافتوں کے طلبگار مٹ گئے

غیبت میں اب بھی باقی مگر ہے غدیر خم

 

سرمایہ ء حیات ہے مومن کے واسطے

دشمن کی زندگی میں زہر ہے غدیر خم

 

دوزخ کا راستہ ہے وہ ، یہ راہِ خلد ہے

اُس سمت ہے سقیفہ، اِدھر ہے غدیر خم

 

شیطانِ جنّ و انس، نہیں آ سکے وہاں

جس سمت، جس جگہ پہ، جدھر ہے غدیر خم

 

اَکمَلتُ دِینَکُم کا یہی ترجمہ تو ہے

زحماتِ مصطفٰی کا ثمر ہے غدیر خم

 

مت پوچھ کتنا جانتا ہوں میں اِسے بهلا

اجداد کا پرانا شہر ہے غدیر خم

 

دلوائے گی نجات، ضلالت سے دیکھنا

تھوڑی سی بھی دلوں میں اگر ہے غدیر خم

 

سرداریِ سپاہِ یزیدی کو چھوڑ کر

حُر کہہ کے آگیا کہ اِدھر ہے غدیر خم

 

کیسے جواب دوگے جو پوچھیں گے یہ امام

بتلاؤ زندگی میں، کدھر ہے غدیر خم

 

 

  • انجمن عین الحیات= گروه طلاب المصطفی العالمیه

🌷غدیر خم اور جانشینی امام علی علیہ السلام کا اعلان 🌷

انجمن عین الحیات= گروه طلاب المصطفی العالمیه | سه شنبه, ۵ تیر ۱۴۰۳، ۰۱:۴۸ ق.ظ

🌷غدیر خم اور جانشینی امام علی علیہ السلام کا اعلان 🌷

تحریر: محمد تقی۔ متعلم جامعۃ المصطفی العالمیہ۔ قم ایران۔

حج سے واپسی کے موقع پر جب مدینہ منورہ کی طرف مراجعت کر نے کے لئے مکہ سے باہر نکلے اور مقام غدیر خم پر پہونچے تو حکم ربانی پہونچ.﴿﴿یٰۤاَیُّہَا الرَّسُوۡلُ بَلِّغۡ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ مِنۡ رَّبِّکَ ؕ وَ اِنۡ لَّمۡ تَفۡعَلۡ فَمَا بَلَّغۡتَ رِسَالَتَہٗ ؕ وَ اللّٰہُ یَعۡصِمُکَ مِنَ النَّاسِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الۡکٰفِرِیۡنَ﴾﴾مائدہ 67

ترجمہ:اے پیغمبر جو آپ پر آپکے خدا کی طرف سے اتارا جاچکا ہے پہونچا دیجئے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے اس کا پیغام کچھ پہونچا یا ہی نہیں اور اللہ آپ کو لوگوں (کے شر) سے محفوظ رکھے گا، بے شک اللہ کافروں کی رہنمائی نہیں کرتا۔

 نبی گرامی ﴿ص﴾ نے خدا کے حکم کو عملی جامہ پہنانے کے لیے یہ دستور دیا کہ قافلے کو اسی جگہ روکا جائے اور جو لوگ آگے بڑھ گئے تھے ان کی طرف کچھ سوار بھیجے کہ وہ سب کے سب  مقام غدیر خم تک واپس پلٹے اور اور جو قافلے پیچھے رہ گئے تھے ان کا انتظار کیا.1

اس وقت گرامی نھایت سخت تھی آفتاب آھستہ آھستہ  نصف النھار تک پہونچ رہا تھا ۔ریگ صحرأ  کی تپش کا عالم یہ تھا کہ مسلمان اپنی عبا کا ایک حصہ اپنے پیروں کے نیچے دباۓ تھے تاکہ دھڑکتے ہوئے ذروں سے امان میں رہیں اور دوسرا حصہ اپنے سروں پر رکھے ہوئے تھے تاکہ تمازت آفتاب آذار و اذیت نہ پہونچاۓ.2

آہستہ آہستہ سارے مسلمان سمٹ کر اکٹھا ہو گئے اور سب یہ جاننا چاہتے تھے کہ کون سا ایسا واقعہ رونما ہوا ہے کہ پیغمبر نے انہیں اس طر یقے سے روک رکھا ہے

پیغمبر خدا  ص نے یہ حکم دیا کہ صحراہ میں اقامہ نماز اور خطبہ کے لیے ایک جگہ امادہ کی جائے مسلمانوں نے بیابان کے ایک حصے سے جھاڑ اور پتھر ہٹائے اور اونٹ کے کا جاووں کو ایک دوسرے پر رکھ کر نبی پاک کے لیے ممبر تیار کیا اور اعلان ہوا کہ الصلوۃ جامعہ یعنی نماز جماعت میں سب آ کر رسول اکرم کے ساتھ شریک ہوں نبی اکرم نے نماز ظہرنماز باجماعت ادا کی اس کے بعد حضرت علی کو اپنے ساتھ لے کر اس ممبر کی چوٹی پر تشریف لے گئے اور انہیں اپنی داہنی جانب کھڑا کیا اور بسیط خطبہ ارشاد فرمایا جو خطبہ قدیر کے نام سے معروف ہے جس کے بعض حصے کو ہم یہاں نقل کر رہے ہیں

 

( خطبہ غدیر ) نبی گرامی  ﷺنے سب سے پہلے خدا کی حمد و ثنا ادا فرمائی اور وعظ و نصیحت کیا اس کے بعد فرمایا مجھے دعوت حق آگئی ہے قریب ہے کہ وہ وقت کہ میں اس پر لبیک کہوں اب تمہاری نظروں سے اوجھل ہونے کا میرا وقت اگیا ہے میں مسٔول ہوں (مجھ سے باز پرسی کی جائے گی )اور تم بھی مسٔول ہو ( تم سے بھی  سوال کیا جائےگا) بتاؤ تمہاری رائے کیا ہے سب نے عرض کیا ہم گواہی دیتے ہیں کہ اپ نے خدا کے پیغامات پہنچائے اور خیر خواہی پہنچائی خد آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے نبی گرامی نے فرمایا کیا تم لوگ گواہی نہیں دیتے ہو کہ اللہ کے سوا کوئی برحق خدا نہیں اور محمد اس کے رسول ہیں اور جنت و جہنم حق ہے سب نے عرض کیا کیوں ہم گواہی دیتے ہیں نبی گرامی نے فرمایا خدایا گواہ رہنا اس کے بعد نبی نے ارشاد فرمایا اے لوگو میں تمہارے پاس سے جانے والا ہوں اور تم میرے پاس اؤ گے اس حوض پر جس کا عرض شام کے بصر نامی شہر یمن کے سنعہ تک ہے جس میں ستاروں کی تعداد کے برابر چاندی کے جام پائے جاتے ہیں وہاں میں تم سے ثقلین کے بارے میں سوال کروں گا دھیان رکھنا کہ میرے بعد ان کے ساتھ کیسا برتاؤ کرتے ہو اتنے میں ایک شخص نے پکار کر کہا اے اللہ کے رسول ثقلین کیا ہے نبی نے ارشاد فرمایا کتاب خدا جس کا ایک سرا خدا کے ہاتھ میں اور دوسرا تمہارے ہاتھ میں اس سے متمسک رہنا تاکہ گمراہ وہلاک نہ ہو جاؤ دوسرے میری عترت اور میرے اہل بیت لطیف و خبیر خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ دو یا دیگار ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس وارد ہوں گے میں نے اس کا پروردگار سے مطالبہ کیا ہے تم لوگ ان دو پر سبقت  نہ کرنا کہ ہلاک ہو جاؤ گے۔ ان دونوں کے حق میں کوتاہی نہ کر کے تباہ ہو جاؤ گے اور میرے اہل بیت کو کسی چیز کے سکھانے کی کوشش نہ کرنا کہ وہ تم سے عالم و دانہ تر ہیں  ٣

اس کے بعد نبی گرامی نے فرمایا (ألستم تعلمون انی أولى باالمومنین من أنفسهم قالوا بلى ) کیا تم جانتے ہو کہ میں تم مومنین پر ان کے نفسوں سے زیادہ اختیار رکھتا ہوں قالو بلا سب نے کہا کیوں نہیں یا رسول اللہ ہم جانتے ہیں پھر فرمایا (الستم  تعلمون انی او لا بکل مؤمن من نفسه) کیا تم نہیں جانتے اوکے میں ہر فرد مومن پر اس کے نفس سے زیادہ اختیار رکھتا ہوں سب نے کہا کیوں نہیں یا رسول اللہ ہم جانتے ہیں ۴

پس اپ نے حضرت علی کے دونوں ہاتھوں کو اونچا کیا اتنا کہ دونوں حضرات کی زیر بغل کی سفیدی ظاہر ہوئی پھر فرمایا (الله مولى وانا مولا المؤمنین وانا اولى به من انفسهم )خداوند عالم میرا مولا و سرپرست ہے میں تمام مومنین کا سرپرست ہوں اور تمام مومنین پر ان کے نفوس سے زیادہ اختیار رکھتا ہوں پھر فرمایا (من کنت مولاه فعلی مولاه  اللهم وال من والاه وعادمن عاداه وانصر من نصره واخذل من خذله واحبّ من احبّه وابغض  من ابغضه)

 

خداوند جس کا میں مولا ہوں علی اس کا مولا ہے خداوندہ تو دوست رکھ اسے جو اسے دوست رکھے اور دشمن ہو اس کا جو اس کا دشمن ہو خداوند ناصر و مددگار ہو اس کا جو اس کا ناصر و مددگار ہو جو اس کو تنہا چھوڑ دے تو اس کو تنہا چھوڑ دے اس کے محب کو محبوب اور اس سے بغض و عداوت رکھنے والے کو مغبوض رکھ ۔ ۵

 اس کے بعد فرمایا خدایا گواہ رہنا ابھی یہ تمام لوگ ایک دوسرے سے جدا بھی نہ ہو پائیں تھے کہ یہ ایت مبارک نازل ہوئی( الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتى وراضیت لکم الاسلام دینا ) سورہ مائدہ ۳

 اج میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو کامل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت کو پورا کر دیا اور تمہارے  اس دین اسلام سے  میں راضی ہوں

نبی گرامی نے فرمایا اللہ اکبر خدا کا شکر دین کے کامل نعمت کا پورے ہونے اور پروردگار کا میری رسالت اور میرے بعد علی کی ولایت سے راضی ہونے پر ۶

 یعقوبی اپنی کتاب تاریخ یعقوبی نزول قرآن فی المدینہ میں فرماتا ہے کہ سب سے اخری آیات جو نبیگرامی  پر نازل ہوئی وہ ایت اکمال تھی اور یہ صحیح اور ثابت روایت ہے یہ آیہ کریمہ مقام غدیر خم پر علی ابن ابی طالب امیر المومنین پر نص کے دن نازل ہوئی (یعنی جس دن ان کو صراحتا مولا بنایا گیا اس دن نازل ہوئی) ۷

 اس کے بعد رسول خدا ممبر سے نیچے تشریف لائے اور حضرت علی کو حکم دیا کہ وہ ایک خیمے میں جو سامنے لگایا گیا تھا بیٹھے اور تمام اصحاب بیت کے لیے ان کے پاس جائے مسلمانوں نے بھی ایسا ہی کیا ۔ ۸

 سب سے پہلے جس نے امیر المومنین کے دست مبارک پر بیعت کی عمر اس کے بعد ابوبکر سپس عثمان ،طلحہ اور زبیر تھے ،عمر نے اس طرح مبارک باد پیش کی (بخٍ بخٍ  یابن ابی طالب اصبحت مولای ومولى کل مسلمین) اے ابو طالب کے بیٹے اپ میرے اور تمام مسلمانوں کے مولا ہو گئے ۹ ۔

 پیغمبر اکرم کی ازواج اور تمام وہ خواتین جو کاروان کے ساتھ تھی ان لوگوں نے بھی علی کے دست مبارک پر بیعت کی اس طرح کے امام نے اپنے دست مبارک کو پانی کے برتن میں قرار دیا اور عورتیں یکے بعد دیگر ظرف کے دوسرے طرف اس طرح سے امام علی کے دست مبارک پر بیت کر رہی تھی۔ ۱۰

 بیعت کی رسومات مجمع کی کثرت کی وجہ سے تین دن تک انجام پائی۔ ۱۱ ۔  بیعت کی رسومات انجام پانے کے بعد رسول خدا نے اپنا صحاب نامیاں عمامہ امیر المومنین کے سر اقدس پر رکھا اعراب کے درمیان یہ عمل اس وقت انجام دیا جاتا تھا جب کوئی شخص اپنے جانشین کی معرفی کراتا تھا ۱۲

 غدیر خم کے مقام پر جانشینی انجام پا جانے کے بعد جو لوگ حجۃ الوداع میں شام و مصر سے ائے تھے وہ سب سرزمین جحفہ ہی پر نبی اکرم سے جدا ہوئے اور واپس چلے گئے اور جو لوگ  حضرموت و یمن ائے تھے وہ لوگ بھی اسی مقام یا اس سے پہلے والے نقطے سے کاروان  حج سے جدا ہوئے اور اپنے وطن کی طرف روانہ ہوئے  لیکن 10 ہزار لوگوں پر مشتمل ایک گروہ جو مدینہ منورہ سے نبی اکرم کے ہمراہ ایا تھا وہ سب کے سب انحضرت کی رکاب میں مدینہ کے لیے روانہ ہوئے اور ذی الحجہ کے اخری دنوں میں اور دسویں ہجرت کے اخری دنوں میں شہر مدینہ میں داخل ہو گئے ایک یا دو دن گزرنے کے بعد گیارہویں ہجری کے محرم کا چاند نمودار ہوا  ۱۳

___________________________________________

1.سنن الکبری (نسائی)ج 5 ص135 ح8480.

2.التحصین سید ابن طاؤس ۔ص578

و درسنامہ تاریخ اسلام ۔ص230

3.مجمع الظواھد(حیثمی)ج9ص162-163-165

  شواھد التنزیل (حسکانی) ج1۔ص192-193

 مسند احمد:ج4۔ص381

4. مسند احمد:ج1. ص118-119

5۔مسند احمد ج4۔ ص281-223-270-272

تاریخ ابن کثیر  ج5 ص209 -212

 شواھد التنزیل حسکانی ج1۔ص190(مختلف عبارت کے ساتھ)

6. مسند احمد ج1 ص118-119

7.تاریخ یعقوبی ج2۔ ص43

8.احتجاج ۔ج1۔ص159.

9.تاریخ بغداد  ج8 ص284

10.درسنامہ تاریخ اسلام

11.الغدیر۔ ج1 ص270

12.احقاق الحق ۔ج6 ص247

13. فرازھای از  تاریخ پیمبر اسلام (جعفر سبحانی)

تاریخ اسلام جلد 1  (سید ہاشم محلاتی)

 

  • انجمن عین الحیات= گروه طلاب المصطفی العالمیه

ہماری سب سےبڑی عید؛ عید غدیر

انجمن عین الحیات= گروه طلاب المصطفی العالمیه | سه شنبه, ۵ تیر ۱۴۰۳، ۰۱:۴۳ ق.ظ

ہماری سب سےبڑی عید؛ عید غدیر

تحریر: محمد علی۔ متعلم جامعۃ المصطفی العالمیہ۔ قم ایران۔

 

اسلام میں بہت سی عید  ہے عید الفطر تو عید قربان جو تمام مسلمانوں سےمخصوص ہےلیکن اہل تشیع میں اس کےعلاوہ  دوسری بھی عیدیں پائی جاتی ہیں ان سب میں جو سب سےبڑی عید ہے اس کو ہم عید غدیرکہتے ہیں ۔کیونکہ اس دن  حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےاللہ کےحکم سے حضرت علی  علیہ السلام کو اپنا جانشین معین فرمایا ،سارے حاجیوں نےاس  جانشینی اور خلافت کے عہد ہ ملنے پر  حضرت علی علیہ السلام کو مبارک باد ی دی۔ظاہرسی بات ہےاس  عید کو ہم سب سےبڑی عید کیوں  نہ کہیں کہ جس دن اللہ اور رسول  خد اصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےدین کا  محافظ ملا اور سارے مومنین کو امیر ،ہادی ،پیشواء  ،صراط مستقیم ،ساقی کوثر،اور جہنم کےعذاب سے بچانےوالا ،ملا۔جس کی محبت دل میں رکھنے سے  مسلمان صاحب ایمان بنتاہے۔اور صاحب ایمان  ،ایمان کےمدارج کو طے کرتاہے۔جس کےوجہ سے کفار اور مشرکین  کےآرزوں پر پانی پھیراکہ جویہ تمناکربیٹھے تھےکہ محمدکےبعد دین اسلام  نابود اور برباد ہوجائے گاپس ہمارا حق بنتاہےکہ ہم اس عید کو سب سےبڑی عید کہیں۔

حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:

هُوَ عِیدُ اللَّهِ‏ الْأَکْبَرُ وَ مَا بَعَثَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ نَبِیّاً إِلَّا وَ تَعَیَّدَ فِی هَذَا الْیَوْمِ وَ عَرَفَ حُرْمَتَهُ وَ اسْمُهُ فِی السَّمَاءِ یَوْمُ الْعَهْدِ الْمَعْهُودِ وَ فِی الْأَرْضِ یَوْمُ الْمِیثَاقِ الْمَأْخُوذِ وَ الْجَمْعِ الْمَشْهُوداقبال(قدیمی)ابن طاوس، علی بن موسی،جلد 2)

...عید غدیر خداوندعالم کی سب سے بڑی عید ہے،خدانےکسی پیامبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کومبعوث نہیں کیامگر یہ کہ اس دن  کو عید کا دن  قراردیا اور اس کی عظمت کو پہچنوایا اوراس دن کےنام کو آسمان میں روز عہد وپیمان اور زمین  میں عہد محکم  کادن قراردیا ہے...

حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:

یَوْمُ‏ غَدِیرِ خُمٍ‏ أَفْضَلُ أَعْیَادِ أُمَّتِی وَ هُوَ الْیَوْمُ الَّذِی أَمَرَنِیَ اللَّهُ تَعَالَى ذِکْرُهُ فِیهِ بِنَصْبِ أَخِی عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ ع عَلَماً لِأُمَّتِی یَهْتَدُونَ بِهِ مِنْ بَعْدِی وَ هُوَ الْیَوْمُ الَّذِی أَکْمَلَ اللَّهُ فِیهِ الدِّینَ وَ أَتَمَّ عَلَى أُمَّتِی فِیهِ النِّعْمَةَ وَ رَضِیَ لَهُمُ الْإِسْلَامَ دِیناً.)رو ضۃ الواعظین وبصیرۃ المتعظین (قدیمی )، فتال نیشاپوری ،جلد 1،ص102)

ہماری امت میں سب سے بڑی عید غدیر کا دن  ہےکہ جس  دن خداوند عالم  نے مجھے حکم  دیا کہ اپنےبھائی  علی ابن  ابی طالب  کو امت کا ولی وسرپرست منتخب کروں ،تاکہ میرےبعد لوگ ان سےہدایت حاصل کریں،یہ وہ دن ہے کہ جس دن خداوند عالم نے دین کو مکمل اور نعمتوں کو ہماری امت پر تمام کیا ہےاور ان کے لئے دین  اسلام  کو پسندید ہ بنادیا ہے۔

  • انجمن عین الحیات= گروه طلاب المصطفی العالمیه

امام محمد باقر علیہ السلام کا  یزید پلید کو دندان شکن جواب

انجمن عین الحیات= گروه طلاب المصطفی العالمیه | پنجشنبه, ۲۴ خرداد ۱۴۰۳، ۱۱:۳۶ ب.ظ

امام محمد باقر علیہ السلام کا  یزید پلید کو دندان شکن جواب

تحریر: سید محمد شاداب رضوی۔ متعلم جامعۃ المصطفی العالمیہ۔ قم ایران۔

 

یزید اپنے اردگرد موجود مشیروں سے اسراء اھل حرم کے بارے میں مشورہ کر رہا تھا کہ یزید کے مشیروں نے اھل حرم کو قتل کرنے کا مشورہ دیا۔ یہاں پر امام باقر ع  جو ابھی کمسن  تھے ، خدا کی حمد و ثنا کے بعد یزید کو مخاطب کرتے ھوئے فرماتے ہیں:

اے یزید تیرے مشیروں کا مشورہ فرعون کے مشیروں کے مشورے کے خلاف ھے  کیونکہ انہوں نے آپس میں مشورہ کرکےفرعون سے کہا تھا کہ: انہیں (موسیٰ اور ہارون) کو مہلت دو مگر تیرے مشیر کہہ رھے ہیں کہ توہمیں یعنی خاندانِ رسول ص کو قتل کر دے۔ جانتے ہو اس کی علت اور سبب کیا ہے!

 یزید نے کہا: کیا سبب ہے؟ امام باقر ع نے فرمایا:

 چونکہ (فرعون کے مشیر) حلال زادے تھے  اور تیرے مشیر حرامزادے ہیں۔ اور درحقیقت  انبیاء اور ان کی اولاد کو جز حرامزادے کے کوئی قتل نہیں کرتا ! یزید،  امام باقر علیہ السلام کے اس استدلال اور دندان شکن جواب کو سن کر کھسیاکرخاموش ہونے  پر مجبور ہو گیا- ]مسعودی، اثبات الوصیه صفحہ 181[

 

  • انجمن عین الحیات= گروه طلاب المصطفی العالمیه

حضرت  امام محمدباقرعلیہ السلام کی تین نصیحتیں

انجمن عین الحیات= گروه طلاب المصطفی العالمیه | پنجشنبه, ۲۴ خرداد ۱۴۰۳، ۱۱:۳۶ ب.ظ

 

حضرت  امام محمدباقرعلیہ السلام  کی تین نصیحتیں

 

تحریر: محمد علی ۔ متعلم جامعۃ المصطفی العالمیہ۔ قم ایران۔

 

واقعا اہل بیت  علیہم السلام  کی جو  نصیحتیں ہیں  اگر اس پر کوئی  شخص عمل کرلے اور  اپنےزندگی کا  حصہ بنالے تو  وہ کامیاب  اور سعادت  مند ہوسکتاہے  کیونکہ  ان  کےدہن  مبارک  سے نکلے  ہوئےکلام  یا قرآن  مجید کی آیت   تفسیر ہوتی ہےیا حکمت  لہذا حضرت  امام  محمد باقر علیہ السلام  کی کچھ نصیحتوں  کو اپنے  اور مخاطبین  کےتذکر کےلئے بیان کرنا چاہوں گا تاکہ خداوندعالم  کی توفیق سے اس  پرعمل کرنےکا موقع مل جائے ۔

آپ فرماتے ہیں:تین  چیزوں کو  اللہ نےتین چیزوں میں مخفی رکھی ہے:

1۔اپنی خشنودی کو اپنی اطاعت میں ۔

کسی مطیع بندےکو حقیر  نہ سمجھو شاید اس سے خدا راضی ہو۔ یہ اسلام کا کتنا بہترین  اخلاقی  جملہ  ہے،اگر انسان  اسی پر عمل کرنےلگے تو پھرکسی پر ظلم  نہیں کرےگا،لیکن یہ  کیسے ممکن ہے کیونکہ اس  نصحیت  پرعمل کرنےسےاپنی مرضی  خدا کےمرضی کےمقابل میں آجاتی ہے،اگر ہم اس خیال سے کسی پر ظلم نہ کریں کہ شاید اس  سےخدا راضی ہو تو ہم نےاس بند ے پر ظلم کرکے خدا کی نارضگی خرید لی۔اگر ہم چاہتے  ہیں  کہ خداناراض  نہ ہوتو ہم کسی پر ظلم نہ کریں تو اس  طرح  پورا معاشرہ  بہتر ہوجائے گا ۔مگر افسوس کہ  اس کےبیچ اپنی آنا آجاتی ہےاپنا تکبر   اس بات کو گوارہ نہیں کرتاہے کہ ہم کسی  آدمی کےچھوٹے سے  خطا کومعاف کردیں۔

2۔کسی گناہ کو چھوٹا نہ  سمجھو  شاید خدا اسی  سےناراض  ہوجائے ۔

اگر ہماری  زندگی   کے  سارے  امور   میں  خدا  کی رضایت مورد نظر ہوتی تو گناہ کا کوئی سوال ہیں نہیں ہوتا ،مگر ہم   تو  زندگی کو اپنےطور سےگزارنا ہے  تو اس  صورت  میں بہت سےایسےموارد  آئیں  گے جو اپنے مرضی کےمطابق اور خدا کےمرضی کےمخالف ہوں  گے تو ہمارا نہ جانےکونسا سابراعمل  خداکو ناراض کردے نہیں معلوم  لہذا کوشش کرنا چاہیے کہ کوئی اپنا فعل خدا کےنارضگی کا باعث نہ ہو۔

3۔اپنے دوستی یا اپنےولی،مخلوقات میں سےکسی شخص کو حقیر نہ سمجھو شاید  وہ  ولی اللہ ہو۔(نور الابصار،ص 131،اتحاف،ص93)۔

 اکثر  دولت مند انسان  اپنےرہن    سہن سے پہچانےجاتے ہیں   اور ان کی ظاہری مکان اور  قیمتی گاڑی  وغیر ہ سےمعلوم ہوتا کہ یہ  فلاں صاحب  ثروت ہےاور اس  کےعلاوہ  اور دوسری چیزوں سے انسان   کی ثروت مند ی ظاہر ہوجاتی ہےمگر جو آدمی ایمان اور عقیدےکےلحاظ سےامیر ہوتو   اس  کی معنوی کمال دیکھائی نہیں دیتا جب  دیکھائی نہیں دیتاتو معلوم نہیں کہ کونسا  انسان  ایمان  کےبلند مرتبہ پر ہے اور  اللہ کا ولی ہے لہذا ہر انسان کا احترام کرناچاہئے۔

  اللہ ہم سب کو بھی اپنی  اطاعت کرنےکی توفیق عطا فرما۔

 

  • انجمن عین الحیات= گروه طلاب المصطفی العالمیه

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی اہم نصیحتیں

انجمن عین الحیات= گروه طلاب المصطفی العالمیه | پنجشنبه, ۲۴ خرداد ۱۴۰۳، ۱۱:۳۳ ب.ظ

 

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی اہم نصیحتیں

تحریر: سید محمد شاداب رضوی۔ متعلم جامعۃ المصطفی العالمیہ۔ قم ایران۔

 

شہادت حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کے موقع پر تمام عاشقان اہل بیت علیہم السلام کی خدمت میں تعزیت و تسلیت کے ساتھ امام علیہ السلام کی بعض اہم نصیحتیں پیش خدمت ہیں:

الف۔ شیطان سے ہوشیار رہنے کے مواقع:

جب نوح علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی قوم کے لئے بد دعا کی تو ابلیس ان کے پاس آیا اور کہا؛ اے نوح! مجھے تین جگہوں پر کبھی فراموش نہ کرنا ۔ کیونکہ میں ان تین جگہوں میں سے کسی ایک جگہ پر  بندوں سے زیادہ قریب ہوں:

 ۱۔ جب بھی غصہ آئے مجھے یاد رکھنا۔  

 ۲۔ جب دو لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنا تو مجھے یاد رکھنا

۳۔ جب بھی آپ کسی نا محرم عورت کے ساتھ اکیلے ھوں اور آپ کے ساتھ کوئی نہ ھو تو مجھے یاد رکھنا۔

نتیجہ:

امام باقر علیہ السلام   کے ارشاد سے پتہ چلتا ھے یہ تین مقامات وہ ہیں جہاں شیطان انسان پر غلبہ پاکر اسے گمراہ کرسکتا  ہے لہذا ہمیں خاص کر ایسی جگہ ذکر پروردگار کرنا چاہیے تاکہ ہم اس کے مکر و  فریب سے نجات پا سکیں۔ ]الخصال: 132/140[۔

 

ب۔ قبر میں کام آنے والے چھ خوبصورت چہرے:

ابو بصیر امام باقر (ع) سے  نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: جب مومن کا جسم قبر میں رکھا جاتا ہے تو اس کے ساتھ چھ خوبصورت چہرے قبر میں داخل ہوتے ہیں۔  ان میں سے

پہلا دائیں طرف کھڑا ھوتا ہے

دوسرا اس کے بائیں جانب 

تیسرا اس کے روبرو

چوتھا اس کے پشت سر کھڑا ھوتا ھے

پانچواں اس کے پائینتی کھڑا ھوتا ہے۔

(چھٹا) جو ان میں سے  سب سے زیادہ خوبصورت ہے اس کے سرھانے کھڑا ھوتا ہے۔

اور سب سے خوبصورت چھرہ  دوسرے پانچ چہروں سے پوچھتا ہے: تم کون ہو؟ 

جو میت کے دائیں طرف ہے وہ کہتا ہے: میں نماز ہوں۔

اور میت کے بائیں طرف والا کہتا ہے: میں زکات ہوں۔

 اور روبرو والا کہتا ہے: میں روزہ ہوں۔

اور پشت سر والا کہتا ہے: میں حج اور عمرہ  ہوں۔

اور جو پائینتی کھڑا ہے کہتا ہے: میں وہ ہوں جس نے اپنے دینی بھائیوں کے ساتھ اچھا سلوک کیا۔

پھر وہ پانچ چہرے اس روشن چہرے سے جو سب سے زیادہ خوبصورت اور خوشبودار ھے  پوچھتے ہیں: تم کون ہو، تو وہ جواب دیتا ہے"انا الولایة آل محمد ص"  میں ولایت آل محمد ھوں۔ ]بحار الانوار، جلد 6: 134[۔

امام باقر علیہ السلام کے ارشاد کی روشنی میں نماز، زکات کی پابندی، روزہ ، حج و عمرہ ، لوگوں کے ساتھ نیک برتاو اور سب سے اہم ولایت اہل بیت علیہم السلام وہ اہم چیزیں ہیں جو ہماری نجات کی ضامن ہیں۔ اورموت کے بعد قبر اور اس کے بعد کے مراحل کے لئے کام آنے والے ہیں لہذا ہمیں ان سب چیزوں کاسب سے زیادہ دھیان رکھنا چاہئے۔

 

ج۔ دنیا کے بہترین کام:

امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:

 جو شخص ان تین حالتوں میں سے کسی ایک کے لیے دنیا کا طالب ہو:

 1- لوگوں سے بے نیازی کے لیے،

 2 - گھر والوں کی آرام و اسائش کے لیے،

3- اپنے پڑوسیوں کی مدد کے لیے.

 تو قیامت کے دن وہ اس حالت میں محشور ہو گا اور اللہ تعالیٰ سے ملاقات کریگا  کہ اس کا  چہرہ چودھویں رات کے چاند کی طرح چمک رھا  ھوگا ۔  ]وسائل الشیعہ، ج17، ص21[

 

 

 

  • انجمن عین الحیات= گروه طلاب المصطفی العالمیه