🌷غدیر خم اور جانشینی امام علی علیہ السلام کا اعلان 🌷
🌷غدیر خم اور جانشینی امام علی علیہ السلام کا اعلان 🌷
تحریر: محمد تقی۔ متعلم جامعۃ المصطفی العالمیہ۔ قم ایران۔
حج سے واپسی کے موقع پر جب مدینہ منورہ کی طرف مراجعت کر نے کے لئے مکہ سے باہر نکلے اور مقام غدیر خم پر پہونچے تو حکم ربانی پہونچ.﴿﴿یٰۤاَیُّہَا الرَّسُوۡلُ بَلِّغۡ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ مِنۡ رَّبِّکَ ؕ وَ اِنۡ لَّمۡ تَفۡعَلۡ فَمَا بَلَّغۡتَ رِسَالَتَہٗ ؕ وَ اللّٰہُ یَعۡصِمُکَ مِنَ النَّاسِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الۡکٰفِرِیۡنَ﴾﴾مائدہ 67
ترجمہ:اے پیغمبر جو آپ پر آپکے خدا کی طرف سے اتارا جاچکا ہے پہونچا دیجئے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے اس کا پیغام کچھ پہونچا یا ہی نہیں اور اللہ آپ کو لوگوں (کے شر) سے محفوظ رکھے گا، بے شک اللہ کافروں کی رہنمائی نہیں کرتا۔
نبی گرامی ﴿ص﴾ نے خدا کے حکم کو عملی جامہ پہنانے کے لیے یہ دستور دیا کہ قافلے کو اسی جگہ روکا جائے اور جو لوگ آگے بڑھ گئے تھے ان کی طرف کچھ سوار بھیجے کہ وہ سب کے سب مقام غدیر خم تک واپس پلٹے اور اور جو قافلے پیچھے رہ گئے تھے ان کا انتظار کیا.1
اس وقت گرامی نھایت سخت تھی آفتاب آھستہ آھستہ نصف النھار تک پہونچ رہا تھا ۔ریگ صحرأ کی تپش کا عالم یہ تھا کہ مسلمان اپنی عبا کا ایک حصہ اپنے پیروں کے نیچے دباۓ تھے تاکہ دھڑکتے ہوئے ذروں سے امان میں رہیں اور دوسرا حصہ اپنے سروں پر رکھے ہوئے تھے تاکہ تمازت آفتاب آذار و اذیت نہ پہونچاۓ.2
آہستہ آہستہ سارے مسلمان سمٹ کر اکٹھا ہو گئے اور سب یہ جاننا چاہتے تھے کہ کون سا ایسا واقعہ رونما ہوا ہے کہ پیغمبر نے انہیں اس طر یقے سے روک رکھا ہے
پیغمبر خدا ص نے یہ حکم دیا کہ صحراہ میں اقامہ نماز اور خطبہ کے لیے ایک جگہ امادہ کی جائے مسلمانوں نے بیابان کے ایک حصے سے جھاڑ اور پتھر ہٹائے اور اونٹ کے کا جاووں کو ایک دوسرے پر رکھ کر نبی پاک کے لیے ممبر تیار کیا اور اعلان ہوا کہ الصلوۃ جامعہ یعنی نماز جماعت میں سب آ کر رسول اکرم کے ساتھ شریک ہوں نبی اکرم نے نماز ظہرنماز باجماعت ادا کی اس کے بعد حضرت علی کو اپنے ساتھ لے کر اس ممبر کی چوٹی پر تشریف لے گئے اور انہیں اپنی داہنی جانب کھڑا کیا اور بسیط خطبہ ارشاد فرمایا جو خطبہ قدیر کے نام سے معروف ہے جس کے بعض حصے کو ہم یہاں نقل کر رہے ہیں
( خطبہ غدیر ) نبی گرامی ﷺنے سب سے پہلے خدا کی حمد و ثنا ادا فرمائی اور وعظ و نصیحت کیا اس کے بعد فرمایا مجھے دعوت حق آگئی ہے قریب ہے کہ وہ وقت کہ میں اس پر لبیک کہوں اب تمہاری نظروں سے اوجھل ہونے کا میرا وقت اگیا ہے میں مسٔول ہوں (مجھ سے باز پرسی کی جائے گی )اور تم بھی مسٔول ہو ( تم سے بھی سوال کیا جائےگا) بتاؤ تمہاری رائے کیا ہے سب نے عرض کیا ہم گواہی دیتے ہیں کہ اپ نے خدا کے پیغامات پہنچائے اور خیر خواہی پہنچائی خد آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے نبی گرامی نے فرمایا کیا تم لوگ گواہی نہیں دیتے ہو کہ اللہ کے سوا کوئی برحق خدا نہیں اور محمد اس کے رسول ہیں اور جنت و جہنم حق ہے سب نے عرض کیا کیوں ہم گواہی دیتے ہیں نبی گرامی نے فرمایا خدایا گواہ رہنا اس کے بعد نبی نے ارشاد فرمایا اے لوگو میں تمہارے پاس سے جانے والا ہوں اور تم میرے پاس اؤ گے اس حوض پر جس کا عرض شام کے بصر نامی شہر یمن کے سنعہ تک ہے جس میں ستاروں کی تعداد کے برابر چاندی کے جام پائے جاتے ہیں وہاں میں تم سے ثقلین کے بارے میں سوال کروں گا دھیان رکھنا کہ میرے بعد ان کے ساتھ کیسا برتاؤ کرتے ہو اتنے میں ایک شخص نے پکار کر کہا اے اللہ کے رسول ثقلین کیا ہے نبی نے ارشاد فرمایا کتاب خدا جس کا ایک سرا خدا کے ہاتھ میں اور دوسرا تمہارے ہاتھ میں اس سے متمسک رہنا تاکہ گمراہ وہلاک نہ ہو جاؤ دوسرے میری عترت اور میرے اہل بیت لطیف و خبیر خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ دو یا دیگار ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس وارد ہوں گے میں نے اس کا پروردگار سے مطالبہ کیا ہے تم لوگ ان دو پر سبقت نہ کرنا کہ ہلاک ہو جاؤ گے۔ ان دونوں کے حق میں کوتاہی نہ کر کے تباہ ہو جاؤ گے اور میرے اہل بیت کو کسی چیز کے سکھانے کی کوشش نہ کرنا کہ وہ تم سے عالم و دانہ تر ہیں ٣
اس کے بعد نبی گرامی نے فرمایا (ألستم تعلمون انی أولى باالمومنین من أنفسهم قالوا بلى ) کیا تم جانتے ہو کہ میں تم مومنین پر ان کے نفسوں سے زیادہ اختیار رکھتا ہوں قالو بلا سب نے کہا کیوں نہیں یا رسول اللہ ہم جانتے ہیں پھر فرمایا (الستم تعلمون انی او لا بکل مؤمن من نفسه) کیا تم نہیں جانتے اوکے میں ہر فرد مومن پر اس کے نفس سے زیادہ اختیار رکھتا ہوں سب نے کہا کیوں نہیں یا رسول اللہ ہم جانتے ہیں ۴
پس اپ نے حضرت علی کے دونوں ہاتھوں کو اونچا کیا اتنا کہ دونوں حضرات کی زیر بغل کی سفیدی ظاہر ہوئی پھر فرمایا (الله مولى وانا مولا المؤمنین وانا اولى به من انفسهم )خداوند عالم میرا مولا و سرپرست ہے میں تمام مومنین کا سرپرست ہوں اور تمام مومنین پر ان کے نفوس سے زیادہ اختیار رکھتا ہوں پھر فرمایا (من کنت مولاه فعلی مولاه اللهم وال من والاه وعادمن عاداه وانصر من نصره واخذل من خذله واحبّ من احبّه وابغض من ابغضه)
خداوند جس کا میں مولا ہوں علی اس کا مولا ہے خداوندہ تو دوست رکھ اسے جو اسے دوست رکھے اور دشمن ہو اس کا جو اس کا دشمن ہو خداوند ناصر و مددگار ہو اس کا جو اس کا ناصر و مددگار ہو جو اس کو تنہا چھوڑ دے تو اس کو تنہا چھوڑ دے اس کے محب کو محبوب اور اس سے بغض و عداوت رکھنے والے کو مغبوض رکھ ۔ ۵
اس کے بعد فرمایا خدایا گواہ رہنا ابھی یہ تمام لوگ ایک دوسرے سے جدا بھی نہ ہو پائیں تھے کہ یہ ایت مبارک نازل ہوئی( الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتى وراضیت لکم الاسلام دینا ) سورہ مائدہ ۳
اج میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو کامل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت کو پورا کر دیا اور تمہارے اس دین اسلام سے میں راضی ہوں
نبی گرامی نے فرمایا اللہ اکبر خدا کا شکر دین کے کامل نعمت کا پورے ہونے اور پروردگار کا میری رسالت اور میرے بعد علی کی ولایت سے راضی ہونے پر ۶
یعقوبی اپنی کتاب تاریخ یعقوبی نزول قرآن فی المدینہ میں فرماتا ہے کہ سب سے اخری آیات جو نبیگرامی پر نازل ہوئی وہ ایت اکمال تھی اور یہ صحیح اور ثابت روایت ہے یہ آیہ کریمہ مقام غدیر خم پر علی ابن ابی طالب امیر المومنین پر نص کے دن نازل ہوئی (یعنی جس دن ان کو صراحتا مولا بنایا گیا اس دن نازل ہوئی) ۷
اس کے بعد رسول خدا ممبر سے نیچے تشریف لائے اور حضرت علی کو حکم دیا کہ وہ ایک خیمے میں جو سامنے لگایا گیا تھا بیٹھے اور تمام اصحاب بیت کے لیے ان کے پاس جائے مسلمانوں نے بھی ایسا ہی کیا ۔ ۸
سب سے پہلے جس نے امیر المومنین کے دست مبارک پر بیعت کی عمر اس کے بعد ابوبکر سپس عثمان ،طلحہ اور زبیر تھے ،عمر نے اس طرح مبارک باد پیش کی (بخٍ بخٍ یابن ابی طالب اصبحت مولای ومولى کل مسلمین) اے ابو طالب کے بیٹے اپ میرے اور تمام مسلمانوں کے مولا ہو گئے ۹ ۔
پیغمبر اکرم کی ازواج اور تمام وہ خواتین جو کاروان کے ساتھ تھی ان لوگوں نے بھی علی کے دست مبارک پر بیعت کی اس طرح کے امام نے اپنے دست مبارک کو پانی کے برتن میں قرار دیا اور عورتیں یکے بعد دیگر ظرف کے دوسرے طرف اس طرح سے امام علی کے دست مبارک پر بیت کر رہی تھی۔ ۱۰
بیعت کی رسومات مجمع کی کثرت کی وجہ سے تین دن تک انجام پائی۔ ۱۱ ۔ بیعت کی رسومات انجام پانے کے بعد رسول خدا نے اپنا صحاب نامیاں عمامہ امیر المومنین کے سر اقدس پر رکھا اعراب کے درمیان یہ عمل اس وقت انجام دیا جاتا تھا جب کوئی شخص اپنے جانشین کی معرفی کراتا تھا ۱۲
غدیر خم کے مقام پر جانشینی انجام پا جانے کے بعد جو لوگ حجۃ الوداع میں شام و مصر سے ائے تھے وہ سب سرزمین جحفہ ہی پر نبی اکرم سے جدا ہوئے اور واپس چلے گئے اور جو لوگ حضرموت و یمن ائے تھے وہ لوگ بھی اسی مقام یا اس سے پہلے والے نقطے سے کاروان حج سے جدا ہوئے اور اپنے وطن کی طرف روانہ ہوئے لیکن 10 ہزار لوگوں پر مشتمل ایک گروہ جو مدینہ منورہ سے نبی اکرم کے ہمراہ ایا تھا وہ سب کے سب انحضرت کی رکاب میں مدینہ کے لیے روانہ ہوئے اور ذی الحجہ کے اخری دنوں میں اور دسویں ہجرت کے اخری دنوں میں شہر مدینہ میں داخل ہو گئے ایک یا دو دن گزرنے کے بعد گیارہویں ہجری کے محرم کا چاند نمودار ہوا ۱۳
___________________________________________
1.سنن الکبری (نسائی)ج 5 ص135 ح8480.
2.التحصین سید ابن طاؤس ۔ص578
و درسنامہ تاریخ اسلام ۔ص230
3.مجمع الظواھد(حیثمی)ج9ص162-163-165
شواھد التنزیل (حسکانی) ج1۔ص192-193
مسند احمد:ج4۔ص381
4. مسند احمد:ج1. ص118-119
5۔مسند احمد ج4۔ ص281-223-270-272
تاریخ ابن کثیر ج5 ص209 -212
شواھد التنزیل حسکانی ج1۔ص190(مختلف عبارت کے ساتھ)
6. مسند احمد ج1 ص118-119
7.تاریخ یعقوبی ج2۔ ص43
8.احتجاج ۔ج1۔ص159.
9.تاریخ بغداد ج8 ص284
10.درسنامہ تاریخ اسلام
11.الغدیر۔ ج1 ص270
12.احقاق الحق ۔ج6 ص247
13. فرازھای از تاریخ پیمبر اسلام (جعفر سبحانی)
تاریخ اسلام جلد 1 (سید ہاشم محلاتی)
- ۰۳/۰۴/۰۵