🌷 منقبت امام علی علیہ السلام میں منظوم نذرانہ عقیدت 🌷
🌷 منقبت امام علی علیہ السلام میں منظوم نذرانہ عقیدت 🌷
نتیجہ فکر: سید معظم حسین۔ متعلم جامعۃ المصطفی العالمیہ۔ قم ایران۔
قصیدہ اول:
اجالا دیں کا ہے ممنونِ آفتاب ِ غدیر
بمناسبت جشن ولایت و عید غدیر خم
اٹھا دے مجھ پہ بھی معبود اب حجابِ غدیر
پلا دے مجھ کو بھی سلمان سی شرابِ غدیر
نشہ نہ اترے کبھی اس کا اے میرے اللہ
بنا دے میثم و بوذر سا ہم رکابِ غدیر
جوارِ حضرتِ معصومہ مل گیا مجھ کو
خدا کا شکر کہ میں بھی ہوں انتخابِ غدیر
اندھیرے چھٹ گئے سب جھوٹی جانشینی کے
اُفُق پہ چمکا کچھ اس طرح آفتابِ غدیر
اب اس کو روشنی غیروں کی نہ دکھائے کوئی
اجالا دیں کا ہے ممنونِ آفتابِ غدیر
یہ انتخابِ بشر ہے، وہ انتخابِ خدا
سقیفہ ہو نہیں سکتا کبھی جوابِ غدیر
پسِ غدیر منافق کی ساری نیند گئی
ہر ایک رات جگاتا ہے اس کو خوابِ غدیر
جو شیخ دیتے ہیں بڑھ بڑھ کے یوں مبارکباد
انہیں ہے خوف کہ ان پر نہ ہو عذابِ غدیر
یہ ملکِ شام، یہ ایران، یہ عراق و یمن
نہیں جھکائیں گے سر، یہ ہیں ہم نصابِ غدیر
زمانے بھر میں ہوئے ہیں بہت قیام مگر
یہ انقلاب ہے ایراں کا، انقلابِ غدیر
خدا سے، دینِ خدا سے، اِسے جدا نہ سمجھ
کتابِ رب کا ہی حصّہ ہے یہ کتابِ غدیر
قصیدہ دوم:
زحماتِ مصطفیٰ کا ثمر ہے غدیر خم
بمناسبت جشن ولایت و عید غدیر خم
ما فوقِ فکر و عقلِ بشر ہے غدیر خم
زُخرُف ہیں ساری چیزیں گہر ہے غدیر خم
تاریک زندگی میں سحر ہے غدیر خم
حق ہے اسی کی سمت جدھر ہے غدیر خم
بارہ مہینے دیتا ہے دنیا کو فائدے
کچھ ایسا شاندار شجر ہے غدیر خم
انگشتریِ دینِ محمّد کے درمیاں
نایاب و شاندار گہر ہے غدیر خم
نا واقفی سے جس کی ضلالت نصیب ہو
دنیا کی وہ عظیم خبر ہے غدیر خم
جھوٹی خلافتوں کے طلبگار مٹ گئے
غیبت میں اب بھی باقی مگر ہے غدیر خم
سرمایہ ء حیات ہے مومن کے واسطے
دشمن کی زندگی میں زہر ہے غدیر خم
دوزخ کا راستہ ہے وہ ، یہ راہِ خلد ہے
اُس سمت ہے سقیفہ، اِدھر ہے غدیر خم
شیطانِ جنّ و انس، نہیں آ سکے وہاں
جس سمت، جس جگہ پہ، جدھر ہے غدیر خم
اَکمَلتُ دِینَکُم کا یہی ترجمہ تو ہے
زحماتِ مصطفٰی کا ثمر ہے غدیر خم
مت پوچھ کتنا جانتا ہوں میں اِسے بهلا
اجداد کا پرانا شہر ہے غدیر خم
دلوائے گی نجات، ضلالت سے دیکھنا
تھوڑی سی بھی دلوں میں اگر ہے غدیر خم
سرداریِ سپاہِ یزیدی کو چھوڑ کر
حُر کہہ کے آگیا کہ اِدھر ہے غدیر خم
کیسے جواب دوگے جو پوچھیں گے یہ امام
بتلاؤ زندگی میں، کدھر ہے غدیر خم
- ۰۳/۰۴/۰۵