قمر بنی ہاشم حضرت اباالفضل العباس علیہ السلام کے چار منفرد مقام
قمر بنی ہاشم حضرت اباالفضل العباس علیہ السلام کے چار منفرد مقام
تحریر: سید تعلیم رضا جعفری۔ متعلم جامعۃ المصطفی العالمیہ۔ قم ایران
مولاۓ کائنات حضرت علی علیہ السلام کے عظیم الشان بیٹے، حضرت امام حسین علیہ السلام اور جناب زینب و ام کلثوم علیہماالسلام کے بے مثال بھائی کی ولادت کا موقع پر حضرت اباالفصل العباس علیہ السلام کی کچھ اہم خصوصیات اورآپ کے اہم مقامات کا ذکر کیا جارہا ہے۔
حضرت عباس علیہ السلام ان عظیم الشان شخصیتوں میں سےہیں جن کو ہمارے معصوم اماموںؑ نے اپنے زیارت نامے میں کچھ خاص مقامات سے یاد کیا ہے اورجن کو مولا اباالفضل العباس علیہ السلام نے اپنی عملی زندگی میں دنیا کے سامنے پیش کیا ہے اور انہیں مقامات اور خصوصیات کی وجہ سے آپ دوسرے غیر معصوم شہیدوں میں سب سے ممتاز نظر آتے ہیں:
امام صادق علیہ السلام سے مروی زیارت نامے کے مختصر جملوں میں ان چار مقامات کو یوں بیان کیا گیا ہے:
"أَشْهَدُ لَکَ بِالتَّسْلِیمِ وَ التَّصْدِیقِ وَ الْوَفَاءِ وَ النَّصِیحَةِ لِخَلَفِ النَّبِیِّ الْمُرْسَل"
میں گواہی دیتا ہوں اے اباالفضل العباس آپ کے لئے کہ آپ یادگار نبی مرسل حضرت امام حسین[ع]، کے سامنے تسلیم، تصدیق، وفاداری اور خلوص و خیرخواہی کے مقام پر فائز تھے۔ [کتاب کامل الزیارات، ص۲۵۶]۔
یہاں ان چار مقامات کو مختصر طور پر یوں بیان کیا جا سکتا ہے:
۱۔ مقام تسلیم:
امام علی علیہ السلام کے فرمان کے مطابق "دنیا مشکلات و بلاؤں سے بھری ہوئی جگہ کا نام ہے" لہذا ان مشکلات و بلاؤں اور مصیبتوں کے مقابلے میں کبھی انسان اللہ پر توکل کرتا ہے، کبھی صبر کرتا ہے کبھی مقام رضا رکھتا ہے اور کبھی مقام تسلیم رکھتا ہے۔ ان تمام مقامات میں سب سے عظیم مقام "مقام تسلیم" ہوتا ہے۔ اس لئے کہ علماء کے مطابق:
"مقام توکل میں جو کچھ اللہ انسان کے لئے مقدر کرتا ہے اس کو اپنی پسند سے بالاتر سجھتا ہے، اپنے امور میں اللہ کو خود سے بہتر وکیل و چارساز جانتا ہے لہذا اگر اس کی پسند کے خلاف اللہ کوئی حکم دیتا ہے، امر کرتا ہے تو اسے مان لیتا ہے"۔
"مقام توکل سے بڑھ کر مقام رضا ہوتا ہے اس میں انسان خدا کے ارادے و خوشنودی کو ہی سب کچھ سمجھتا ہے اور خدا کی پسند کو اپنے لئے پسند کرتا ہے یعنی مشکلات کے مقابلے میں کبھی نا رضایتی کا اظہار نہیں کرتا ہے کامل طور پر صبر و تحمل کرتا ہے۔ خدا کے ارادے اور پسند میں اپنے ارادے اور پسند کو فنا کردیتا ہے"۔
لیکن مقام تسلیم ان دونوں سے بڑھ کر ہے مقام تسلیم وہ ہوتا ہے جہاں انسان اپنے آپ کو کچھ نہیں سمجھتا ہے، ہر چیز کو مولا کے حوالے کردیتا ہے یہاں اپنے ارادے یا ارادے کے خلاف ہونےیا اسی طرح اپنی پسند یا ناپسند کا سوال ہی نہیں ہوتا ہے کہ انسان کہے کہ جو خدا نے میرے لئے ارادہ کیا یا جو اس نے میرے لئے پسند کیا وہی میرا ارادہ یا میری پسندی ہے۔ بلکہ منزل تسلیم میں انسان خود کو یا جو کچھ اس کے پاس ہوتا ہے پورے وجود کو مولا کے حوالے کردیتا ہے۔
جناب عباس علمدار(ع)، دنیا کی سختیوں کے مقابلے میں مقام توکل، مقام رضا سے بڑھ کر مقام تسلیم پر فائز تھے آپ نے اپنے مولا کے سامنے اپنے پورے وجود کو اس طرح تسلیم کردیا تھا کہ آپ کے اندراپنے ارادے و پسند یا خلاف ارادہ یا ناپسند کا کوئی تصور ہی نہیں تھا، بلکہ جو کچھ آپ کے لیٔے تصور کیا جاسکتا تھا وہ سب آپ نے اپنےمولا کے حوالے کردیا تھا۔
۲۔ مقام تصدیق:
مقام تسلیم کے بعد مقام تصدیق کی منزل ہوتی ہے، جو شخص مولا کے سامنے کامل طور پر تسلیم و پورے وجود کے ساتھ حاضر ہوتا ہے وہ ایسے مرحلے میں پہونچ جاتا ہے جہاں صاحب ولایت(مولا) کی سچائی و حقانیت کو جان لیتا ہے، عاشورا کے واقعہ میں بعض لوگ ایسے تھے جو امام حسین علیہ السلام کے قیام کے بارے میں سوالات کرتے تھے، اشکال کرتے تھے، اپنی رایٔ اورنظر کا اظہار کرتے تھے لیکن کسی بھی تاریخ نے بیان نہیں کیا کہ کبھی بھی جناب ابوالفضل العباس علیہ السلام نے کسی بھی مسئلے کے بارے میں کوئی سوال کیا ہو، کبھی کوئی اشکال و ایراد کیا ہو، کبھی اپنی نظر پیش کی ہو، یہ وہی مقام تصدیق تھا کہ امام جو بھی کہیں یا حکم دیں اس کو انتہائی صداقت کے ساتھ عمل میں لائیں۔
۳۔ مقام وفا:
خداوندعالم نے قرآن مجید میں مومنین کی ایک صفت یہ بیان کی ہے کہ "یہ وہ ہیں جو عہد و پیمان کے وفادار ہیں، کسی میثاق و پیمان کو توڑتے نہیں ہیں" (سورہ رعد، آیہ۲۰)۔ جناب عباس ابن علی علیہما السلام، وفاداری کے میدان میں عظیم و کامل ترین مصداق ہیں۔ اور کربلا کے میدان میں متعدد بار امام کی بیعت کو توڑنے کی بات سامنے آئی جیسے متعددبار دشمن کی طرف سے"امان نامہ" لایا گیا یا خود امام نے اپنی بیعت اٹھا لینے کی بات کہی لیکن ہمیشہ جناب عباس علیہ السلام نے یہی کہا کہ: "مولاؑ کے بعد زندہ رہنے کے لئے ساتھ چھوڑ کر چلے جانا گوارا نہیں ہے اور وہ ایسا کرکے ہرگز زندہ رہنا نہیں چاہتے ہیں" یا اسی طرح دریاۓ فرات پر قبضہ کرنے کے بعد بھی تشنہ لبوں کے احترام میں وفاداری کا عظیم نمونہ تھا کہ آپ نے پانی نہیں پیا اور پوری کوشش کی کہ خیام تک پانی پہونچ جائے، ایک ایک کرکے دونوں ہاتھوں کو کٹوادیا۔شہید ہوگئے، پورا وجود مولاؑ کے لئے فنا کردیا لیکن وفاداری پر حرف نہیں آنے دیا اور آج آپ مقام وفا ہی کی وجہ سے زیادہ مشہور ہیں۔
۴۔ مقام خلوص و خیر خواہی:
جناب عباس علیہ السلام نے اپنی پوری زندگی، خاص طور پر کربلا کے معرکہ میں، تمام مراحل میں ولایت و امامت کے لیٔے ایک مخلص ترین سپاہی کی عملی زندگی کو پیش کیا، خاص طور پر آخری لمحات میں پانی لانے کے لئے باربار سرجھکاکر حاضر ہوجارہےتھےمعلوم تھا کہ اس وقت پانی لانے کے لیٔے جانے کا ظاہری طور پر کویٔ فایٔدہ نہیں ہے لیکن جیسے ہی امام کی اجازت ملی اپنے پورے وجود کے امام کی خواہش پر ڈور گیٔے اور امام کے حکم و اپنی ذمہ داری کو پورا کرنے کے لیٔے اپنا وجودفنا کردیا۔ اور اس عالم میں فقط ایک ہی خواہش تھی کہ امام کا فرمان پورا ہوجائے۔
خلاصہ یہ جناب عباس علمدار کربلاؑ کے یہ وہ چار عظیم مقام تھے جہاں غیر معصومین کو دیکھا جائے تو آپ ہی سب سے عظیم نظر آتے ہیں اور تمام شہیدوں میں ممتاز و بالاترین مقام رکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ امام سجاد علیہ السلام فرماتے ہیں کہ :
"اللہ تعالی کے نزدیک جناب عباس علیہ السلام کی وہ منزلت ہے جس کو دیکھ کر قیامت کے دن تمام شہداء غبطہ (رشک و آرزو) کریں گے" (امالی شیخ صدوق، ص۴۶۳ )۔
مذکورہ مقامات کو پہچاننے کے بعد جناب عباس علیہ السلام سے سچی دوستی و وفاداری کا یہی تقاضا ہے کہ ہم بھی اپنے مالک، اپنے مولا و اپنے امام وقت کی بہ نسبت تسلیم و تصدیق و وفاداری و خلوص کی راہ میں جتنا ممکن ہو کوشش کریں۔
- ۰۳/۰۴/۲۴