
حضرت امام علی(ع) حضرت فاطمہ زہرا(س) کی ازدواجی زندگی سے اہم سبق(2)
تحریر: سید مہدی رضا رضوی۔ متعلم جامعۃ المصطفی العالمیہ- قم ایران
پہلی ذی الحجه
حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا اور حضرت علی علیہ السلام کی شادی شیعہ تاریخ کے اہم ترین واقعات میں سے ایک ہے کیونکہ شیعہ ائمہ کا سلسلہ اسی شادی کا ثمر ہے۔ بعض احادیث کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے وحی الٰہی سے حضرت علی علیہ السلام کی شادی کی۔ اس شادی کی تاریخ کے بارے میں کئی آراء ہیں اور مشہور قول کے مطابق یہ شادی ہجرت کے دوسرے سال ذی الحجہ کی پہلی تاریخ میں ہوئی جبکہ آپ دونوں کے درمیان نکاح کے صیغے پیغمبر اکرمؐ نے پہلے ہی جاری کر دیئے تھے۔ بعض محققین کے مطابق عقد کے دس مہینے بعد رخصتی ہوئی تھی۔ حدیثی کتابوں کے مطابق حضرت علیؑ سے پہلے مہاجرین و انصار میں سے کئی شخصیات نے پیغمبر اکرمؐ سے حضرت فاطمہؑ زہرا سلام اللہ علیہا کا رشتہ مانگا تھا لیکن پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان رشتوں کی مخالفت فرمائی اور فرمایا یہ امر خدا پر ہے یعنی خدا کی مرضی کے مطابق یہ شادی ہونا ہے۔
شادی کے انتظامات:
حضرت زہرا (س) سے اجازت ملنے کے بعد رسول خدا (ص) امیر المومنین علی (ع) کے پاس تشریف لائے اور مسکراتے ہوئے فرمایا: اے علی! کیا تمہارے پاس شادی کے لیے کچھ ہے؟ آپ نے جواب دیا: اے رسولخدا، میرے والدین آپ پر قربان، آپ میری حالت سے خوب واقف ہیں۔ میرا سارا مال ایک تلوار، ایک زرہ اور ایک اونٹ پر مشتمل ہے۔ آپ نے فرمایا: تم جنگ اور جہاد کے آدمی ہو، اور تم کو خدا کی راہ میں تلوار تمہاری ضروریات میں سے ہے۔ اونٹ کو بھی آپ کی زندگی کی ضروریات میں سے ایک سمجھا جاتا ہے، آپ کو اسے اپنے اور اپنے خاندان کے معاشی معاملات کو پورا کرنے، اپنے خاندان کے لیے روزی کمانے، اور اپنے سفر کے دوران اپنا سامان لے جانے کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔ میں تجھ پر سختی نہیں کروں گا اور میں اسی زرہ پر اکتفا کروں گا۔(زندگانی حضرت زهرا سلام الله علیها، ص ۴۰۹)
امیر المومنین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے حکم سے زرہ بیچی اور رقم اس بزرگ کو پیش کی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے اس رقم کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا، اس میں سے ایک حصہ جہیز کے طور پر خریدنے کے لیے استعمال کیا گیا اور دوسرا حصہ عطریات کی تیاری کے لیے استعمال کیا، اور تیسرا حصہ ام سلمہ علیہا السلام کو دیا تاکہ جب شادی کی رات آئے تو وہ اسے امیر المومنین کو واپس کر دیں تاکہ وہ اپنے مہمانوں کی مہمان نوازی کر سکیں۔ (محمد کاظم قزوینی ، فاطمه زهرا سلام الله علیها از ولادت تا شهادت، ص ۱۸۹)
خطبہ نکاح
ابن شہر آشوب نے مناقب آل ابی طالب میں لکھا ہے کہ حضرت فاطمہ علیہا السلام کی شادی کے وقت رسول خدا ؐمنبر پر گئے خطبہ ارشاد فرمایا اس کے بعد لوگوں سے مخاطب ہو کر فرمایا:
خدا نے مجھے حکم دیا ہے کہ فاطمہ ؑ کا نکاح علیہ السّلام کے ساتھ کروں اور اگر علی راضی ہوں تو چار سو مثقال چاندی حق مہر کے ساتھ میں فاطمہ ؑ کا نکاح علیؑ کے ساتھ کر دوں۔ علیؑ نے فرمایا میں اس پر راضی ہوں۔(مناقب آل ابی طالب، ج۳، ص۳۵۰)
بعض روایات کے مطابق حضرت فاطمہ کی موجودگی میں خدا نے حضرت علی کیلئے دوسری شادی حرام قرار دی تھی اسی لئے حضرت فاطمہ کی زندگی میں آپ نے دوسری شادی نہیں کی۔
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا مہر:
حضرت زہراؑ کے مہریے کے بارے میں مختلف اعداد و شمار منقول ہیں۔ 400 سے 500 درہم کے درمیان آپ کا مہر تھا جو شیعوں کے یہاں مہر السنہ کے نام سے معروف ہے۔ احادیث کے مطابق امام علیؑ نے اپنی زرہ بیچ کر حضرت زہراؑ کا مہر ادا کیا۔ لہذا اس امر میں بھی ہم کو سہولت اور آسانی سے کام لینا چاہیے۔
اسکے علاوہ اللہ نے جو مہر قرار دیا اس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے فرمایا: فاطمہ سلام اللہ علیہا کا مہر آسمان پر زمین کا پانچواں حصہ مقرر ہے، پس جو کوئی فاطمہ اور ان کی اولاد سے بغض رکھتا ہے وہ قیامت تک زمین پر حرام چلتا رہے گا۔ ایک اور روایت میں امام باقر علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا کہ فاطمہ کا مہر دنیا کا پانچواں حصہ، ایک تہائی آسمان، چار نہریں ہیں: فرات، مصر میں دریائے نیل، نہروان اور دریائے بلخ۔ (زندگانی حضرت زهرا سلام الله علیها، ص ۳۵۸)
ولیمہ
شادی کی رسومات میں سے ایک رسم مہمانوں کو کھانا کھلانا ہے جس میں مومنین کافی خرچ کرتے ہیں بالخصوص لڑکی والوں کے لیے یہ بہت سخت اور دشوار کام ہے جسمیں اکثرو بیشتر لڑکی کا باپ مقروض ہوجاتا ہے، لیکن اہل بیت علیہم السلام کی سیرت میں ہمیں اس رسم کے لیے برعکس ملتا ہے۔
امیر المومنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: اے علی! اپنی شادی اور خاندان کے لیے کافی کھانا تیار کریں۔ پھر فرمایا: میں گوشت اور روٹی دوں گا، کھجور اور تیل تمہارے ذمہ ہے۔ میں نے کھجوریں اور تیل تیار کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے پاس لے گیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے اپنے کپڑوں کی آستینیں لپیٹیں اور کھجوریں صاف کیں اور انہیں تیل میں ڈال کر "حیس" نامی کھانا تیار کیا اور ایک موٹی بکری ذبح کی اور بہت سی روٹی تیار کی، پھر مجھے فرمایا: آپ جسے چاہیں دعوت کریں۔ (محمد کاظم قزوینی ، فاطمه زهرا سلام الله علیها از ولادت تا شهادت، ص 346))
امیر المومنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں: چنانچہ میں مسجد میں داخل ہوا اور دیکھا کہ مسجد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب سے بھری ہوئی ہے، میں نے کہا: میں آپ سب کو شادی کی دعوت دیتا ہوں۔ گروہ گروہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے گھر کی طرف بڑھ گئے، اور میں لوگوں کی بڑی تعداد اور بہت کم کھانے سے شرمندہ ہوا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو میرے ذہن میں کیا چل رہا تھا اس کی خبر ہوئی تو آپ نے فرمایا: اے علی! میری دعا ہے کہ اللہ آپ کے کھانے میں برکت عطا فرمائے... (محمد کاظم قزوینی ، فاطمه زهرا سلام الله علیها از ولادت تا شهادت ، ص 364- 365 )
جہیز
جیسا کہ مشہور ہے امام علیؑ نے حق مہر کی ادائیگی کے لئے زرہ فروخت کی تھی۔ جب رقم پیغمبرؐ کو دی تو آپؐ نے اس رقم کو گنے بغیر کچھ رقم بلال کو دی اور فرمایا: اس رقم سے میری بیٹی کے لئے اچھی خوشبو خرید کر لے آؤ! اور باقی بچی رقم ابوبکر کو دی اور فرمایا: اس سے کچھ گھر کی اشیاء جن کی ضرورت میری بیٹی کو ہوگی وہ تیار کرو۔ پیغمبرؐ نے عمار یاسر اور کچھ اور صحابہ کو بھی ابوبکر کے ساتھ بھیجا تا کہ وہ حضرت زہراءؑ کے جہیز کے لئے کچھ اشیاء تیار کریں۔
شیخ طوسی نے جہیز کی فہرست یوں لکھی ہے:
ایک قمیض جس کی قیمت 7 درہم تھی
برقعہ 4 درہم میں
خیبر کی تیار کردہ عبا
کجھور کے پتوں سے بنی چارپائی
دو بچھونے جن کا بیرونی کپڑا موٹے کتان کا تھا ایک کجھور کی چھال سے اور دوسرا بھیڑ کی اون سے بھرا ہوا تھا
طائف کے تیار کردہ چمڑے کے چار تکیے جنہیں اذخر (مکی گھاس، بوریا (چٹائی) کی تیاری میں استعمال ہوتی ہے، اس کے پتے باریک ہیں جو طبی خصوصیات کی حامل ہیں) سے پر کیا گیا تھا۔
اون کا ایک پردہ
ہجر میں بنی ایک چٹائی (گویا ہجر سے مراد بحرین کا مرکز ہے نیز ہجر مدینہ کے قریب ایک گاؤں کا نام بھی تھا)
ایک دستی چکی
تانیے کا طشت
چمڑے کا مشکیزہ
لکڑی کا بنا ڈونگا
دودھ دوہنے کے لئے گہرا برتن
پانی کے لئے ایک مشک
ایک مطہرہ (لوٹا یا صراحی جسے طہارت وضو کے لئے استعمال کیا جاتا ہے) جس پر گوند چڑھایا گیا تھا
مٹی کے کئی مٹکے یا جام۔
کہا گیا ہے کہ شادی کے بعد ایک حاجت مند عورت نے جب حضرت فاطمہؑ سے کچھ مانگا تو آپؑ نے اپنا شادی کا جوڑا اسے دے دیا۔(شوشتری، احقاق الحق، ج۱۰، ص۴۰۱)
پیغمبر اکرم (ص) کی دعا
شادی کے ولیمے کے بعد رسول خداؐ علیؑ کے ہمراہ گھر میں داخل ہوئے اور فاطمہؑ کو آواز دی۔ جب فاطمہؑ نزدیک آئیں، تو دیکھا کہ رسول اللہؐ کے ساتھ حضرت علیؑ بھی ہیں۔ رسول اللہؐ نے فرمایا: نزدیک آجاؤ۔ فاطمہؑ اپنے بابا کے نزدیک آئیں۔ رسول اللہؐ نے حضرت علیؑ اور حضرت فاطمہؑ کے ہاتھ کو پکڑا اور جب فاطمہؑ کا ہاتھ علیؑ کے ہاتھ میں دیا تو فرمایا: خدا کی قسم میں نے تمہارے حق میں کوئی کوتاہی نہیں کی اور تمہاری عزت کی اور اپنے خاندان کے بہترین فرد کو تمہارے لئے انتخاب کیا خدا کی قسم تمہاری شادی ایسے فرد سے کر رہا ہوں جو دنیا اور آخرت میں سید و آقا اور صالحین سے ہے ۔۔۔ اپنے گھر کی طرف جائیں۔ خداوند یہ شادی آپکے لئے مبارک فرمائے اور آپکے کاموں کی اصلاح فرمائے۔(یوسفی غروی، محمد ہادی؛ موسوعۃ التاریخ الاسلام، ج۲، ٢١٤)
رسول خداؐ نے اسماء بنت عمیس سے فرمایا: ایک برتن میں میرے لئے پانی لے آؤ اسماء فوراً گئیں اور ایک برتن پانی کا بھر کر لے آئیں۔ آپؐ نے پانی کا ایک چلو بھرا اور اسے حضرت فاطمہؑ کے سر پر ڈالا اور پھر ایک چلو بھرا اور آپؑ کے ہاتھوں پر ڈالا اور کچھ پانی آپؑ کی گردن اور بدن پر ڈالا۔ پھر فرمایا: خدایا فاطمہ مجھ سے ہے اور میں فاطمہ سے ہوں۔ پس جس طرح ہر پلیدی کو مجھ سے دور کیا اور مجھے پاک و پاکیزہ کیا ہے اسی طرح اس کو بھی پاک و طاہر کر دے۔ اس کے بعد فاطمہؑ سے فرمایا: یہ پانی پئیں اور اس سے اپنے منہ کو دھوئیں اور ناک میں ڈالیں اور کلی کریں۔ پھر پانی کا ایک اور برتن طلب کیا اور علیؑ کو بلایا اور یہی عمل دہرایا اور آپؑ کے لئے بھی اسی طرح دعا فرمائی اور پھر فرمایا:خداوند آپ دونوں کے دلوں کو ایک دوسرے کے لئے نزدیک اور مہربان کرے اور آپکی نسل کو مبارک اور آپکے کاموں کی اصلاح فرمائے۔(یوسفی غروی، محمد ہادی؛ موسوعۃ التاریخ الاسلام، ج۲، ص۲۱۵)
نتائج
ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے حضرت علی علیہ السلام اور بی بی فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی زندگی کے اصول ہمارے لیے ائیڈیل ہونا چاہیے لہذا اخر میں ہم اپ کے لیے چند نتائج بیان کرنا چاہتے ہیں
نمبر ایک:
ان دونوں ہستیوں کی زندگی سے ہمیں یہ سمجھ میں آتا ہے کہ لڑکے اور لڑکی دونوں کی لیے شادی میں کسوٹی معیار اور ملاک دین ایمان اور اخلاقی چیزوں کو ہونا چاہیے
نمبر دو:
شادی بیاہ میں بچوں پر اپنی مرضی نہ تھوپی جائے بلکہ ان کی مرضی کا بھی دھیان رکھا جائے باپ یہ نہ سوچیں کہ وہ باپ ہے اس لیے مالک ہے اب بیٹی سے پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے جب حضرت علی علیہ السلام رشتے کے لیے رسول اللہ کے پاس ائے تو آپ جانتے تھے کہ زہرا سلام اللہ علیہا اس رشتے سے راضی ہیں لیکن پھر بھی آپ نے کہا کہ میں فاطمہ کی ان کی مرضی معلوم کرلوں۔
نمبر تین:
حضرت علی علیہ السلام اور بی بی فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شادی بالکل سیدھے سادھے طور پر ہوئی تھی جس میں نہ فضول خرچی ہوئی نہ اسراف نہ دکھاوا تھا نہ کوئی ہلڑ ہنگامہ سادہ رسم سادہ کھانا سادہ ولیمہ سادہ پروگرام جس میں ایمان، محبت و رحمت کا سایہ ہر طرف نظر آرہا تھا۔
نمبر چار:
حضرت علی اور بی بی فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے سادہ زندگی گزاری لیکن پیار محبت ایمان اور خدا کی اطاعت کے سائے میں گزاری۔
نمبر پانچ:
تقسیم کار یعنی کاموں میں بٹوارا باہر کے کام حضرت علی علیہ السلام نے اپنے ذمے اور گھر کے سارے کام شہزادی نے اپنے ذمے لے رکھے تھے لیکن پھر بھی حضرت علی علیہ السلام گھر کے کاموں میں بی بی سیدہ کا ہاتھ بٹاتے تھے۔
آخر میں پروردگار سے دعا ہے کہ ہم سب کو سیرت معصومین علیہم السلام پر عمل کرنے کی توفیق دے اور سماج و معاشرے میں غیر دینی اور بے جا رائج، رسم و رواج سے ہم سب کو محفوظ رکھے۔آمین۔