AINUL-HAYAT FOUNDATION || عین الحیات فاونڈیشن

انجمن ارائه دهنده ی برنامه های گوناگون تحقیقی و تبلیغی یپرامون مسائل مذهبی تشیّع و نظام امامت بویژه حضرت صاحب الزمان(عج)

AINUL-HAYAT FOUNDATION || عین الحیات فاونڈیشن

انجمن ارائه دهنده ی برنامه های گوناگون تحقیقی و تبلیغی یپرامون مسائل مذهبی تشیّع و نظام امامت بویژه حضرت صاحب الزمان(عج)

AINUL-HAYAT FOUNDATION || عین الحیات فاونڈیشن

عین الحیات فاونڈیشن، بر آن است که با توکل بر خدای عزّ وجلّ و با عنایات انوار قرآن و معصومین علیهم السلام، برنامه های گوناگون تحقیقی و تبلیغی یپرامون مسائل مذهبی تشیّع و نظام امامت بویژه حضرت صاحب الزمان(عج) را دنبال نماید و عموم مخاطبان را به سوی نورهدایت متوجه سازد تا زیبایی و شرینی معارف ثقلین را درک کنند.

Ainul-Hayat Foundation aims to monitor and deal with various religious research programs and Tablighi on various religious issues according to the Shia Imamiyyah Sect, especially in relation to Hadhrat Sahib al-Zaman (A.S) as well as guiding and guiding the audience towards the light of conversion so that they can fully benefit from the intellectual light that is found in Thaqalaini's blessed teachings.

عین الحیات فاونڈیشن کا مقصد اللہ تعالیٰ پر توکل اور قرآن اور معصومین علیہم السلام کی عنایات کے سایہ میں مختلف مذہبی تحقیقاتی اور تبلیغی پروگراموں اور دینی مسایل کو پیش کرنا اور شیعہ مکتب فکر؛ خصوصا نظام امامت اور حضرت مہدی صاحب الزمان (عج) کی جانب لوگوں کو متوجہ کرنا اور ان حضرات کی تعلیمات کی لذت کا احساس کروانا ہے۔


۱۳ مطلب در خرداد ۱۴۰۳ ثبت شده است

امام محمد باقر علیہ السلام کا  یزید پلید کو دندان شکن جواب

انجمن عین الحیات= گروه طلاب المصطفی العالمیه | پنجشنبه, ۲۴ خرداد ۱۴۰۳، ۱۱:۳۶ ب.ظ

امام محمد باقر علیہ السلام کا  یزید پلید کو دندان شکن جواب

تحریر: سید محمد شاداب رضوی۔ متعلم جامعۃ المصطفی العالمیہ۔ قم ایران۔

 

یزید اپنے اردگرد موجود مشیروں سے اسراء اھل حرم کے بارے میں مشورہ کر رہا تھا کہ یزید کے مشیروں نے اھل حرم کو قتل کرنے کا مشورہ دیا۔ یہاں پر امام باقر ع  جو ابھی کمسن  تھے ، خدا کی حمد و ثنا کے بعد یزید کو مخاطب کرتے ھوئے فرماتے ہیں:

اے یزید تیرے مشیروں کا مشورہ فرعون کے مشیروں کے مشورے کے خلاف ھے  کیونکہ انہوں نے آپس میں مشورہ کرکےفرعون سے کہا تھا کہ: انہیں (موسیٰ اور ہارون) کو مہلت دو مگر تیرے مشیر کہہ رھے ہیں کہ توہمیں یعنی خاندانِ رسول ص کو قتل کر دے۔ جانتے ہو اس کی علت اور سبب کیا ہے!

 یزید نے کہا: کیا سبب ہے؟ امام باقر ع نے فرمایا:

 چونکہ (فرعون کے مشیر) حلال زادے تھے  اور تیرے مشیر حرامزادے ہیں۔ اور درحقیقت  انبیاء اور ان کی اولاد کو جز حرامزادے کے کوئی قتل نہیں کرتا ! یزید،  امام باقر علیہ السلام کے اس استدلال اور دندان شکن جواب کو سن کر کھسیاکرخاموش ہونے  پر مجبور ہو گیا- ]مسعودی، اثبات الوصیه صفحہ 181[

 

  • انجمن عین الحیات= گروه طلاب المصطفی العالمیه

حضرت  امام محمدباقرعلیہ السلام کی تین نصیحتیں

انجمن عین الحیات= گروه طلاب المصطفی العالمیه | پنجشنبه, ۲۴ خرداد ۱۴۰۳، ۱۱:۳۶ ب.ظ

 

حضرت  امام محمدباقرعلیہ السلام  کی تین نصیحتیں

 

تحریر: محمد علی ۔ متعلم جامعۃ المصطفی العالمیہ۔ قم ایران۔

 

واقعا اہل بیت  علیہم السلام  کی جو  نصیحتیں ہیں  اگر اس پر کوئی  شخص عمل کرلے اور  اپنےزندگی کا  حصہ بنالے تو  وہ کامیاب  اور سعادت  مند ہوسکتاہے  کیونکہ  ان  کےدہن  مبارک  سے نکلے  ہوئےکلام  یا قرآن  مجید کی آیت   تفسیر ہوتی ہےیا حکمت  لہذا حضرت  امام  محمد باقر علیہ السلام  کی کچھ نصیحتوں  کو اپنے  اور مخاطبین  کےتذکر کےلئے بیان کرنا چاہوں گا تاکہ خداوندعالم  کی توفیق سے اس  پرعمل کرنےکا موقع مل جائے ۔

آپ فرماتے ہیں:تین  چیزوں کو  اللہ نےتین چیزوں میں مخفی رکھی ہے:

1۔اپنی خشنودی کو اپنی اطاعت میں ۔

کسی مطیع بندےکو حقیر  نہ سمجھو شاید اس سے خدا راضی ہو۔ یہ اسلام کا کتنا بہترین  اخلاقی  جملہ  ہے،اگر انسان  اسی پر عمل کرنےلگے تو پھرکسی پر ظلم  نہیں کرےگا،لیکن یہ  کیسے ممکن ہے کیونکہ اس  نصحیت  پرعمل کرنےسےاپنی مرضی  خدا کےمرضی کےمقابل میں آجاتی ہے،اگر ہم اس خیال سے کسی پر ظلم نہ کریں کہ شاید اس  سےخدا راضی ہو تو ہم نےاس بند ے پر ظلم کرکے خدا کی نارضگی خرید لی۔اگر ہم چاہتے  ہیں  کہ خداناراض  نہ ہوتو ہم کسی پر ظلم نہ کریں تو اس  طرح  پورا معاشرہ  بہتر ہوجائے گا ۔مگر افسوس کہ  اس کےبیچ اپنی آنا آجاتی ہےاپنا تکبر   اس بات کو گوارہ نہیں کرتاہے کہ ہم کسی  آدمی کےچھوٹے سے  خطا کومعاف کردیں۔

2۔کسی گناہ کو چھوٹا نہ  سمجھو  شاید خدا اسی  سےناراض  ہوجائے ۔

اگر ہماری  زندگی   کے  سارے  امور   میں  خدا  کی رضایت مورد نظر ہوتی تو گناہ کا کوئی سوال ہیں نہیں ہوتا ،مگر ہم   تو  زندگی کو اپنےطور سےگزارنا ہے  تو اس  صورت  میں بہت سےایسےموارد  آئیں  گے جو اپنے مرضی کےمطابق اور خدا کےمرضی کےمخالف ہوں  گے تو ہمارا نہ جانےکونسا سابراعمل  خداکو ناراض کردے نہیں معلوم  لہذا کوشش کرنا چاہیے کہ کوئی اپنا فعل خدا کےنارضگی کا باعث نہ ہو۔

3۔اپنے دوستی یا اپنےولی،مخلوقات میں سےکسی شخص کو حقیر نہ سمجھو شاید  وہ  ولی اللہ ہو۔(نور الابصار،ص 131،اتحاف،ص93)۔

 اکثر  دولت مند انسان  اپنےرہن    سہن سے پہچانےجاتے ہیں   اور ان کی ظاہری مکان اور  قیمتی گاڑی  وغیر ہ سےمعلوم ہوتا کہ یہ  فلاں صاحب  ثروت ہےاور اس  کےعلاوہ  اور دوسری چیزوں سے انسان   کی ثروت مند ی ظاہر ہوجاتی ہےمگر جو آدمی ایمان اور عقیدےکےلحاظ سےامیر ہوتو   اس  کی معنوی کمال دیکھائی نہیں دیتا جب  دیکھائی نہیں دیتاتو معلوم نہیں کہ کونسا  انسان  ایمان  کےبلند مرتبہ پر ہے اور  اللہ کا ولی ہے لہذا ہر انسان کا احترام کرناچاہئے۔

  اللہ ہم سب کو بھی اپنی  اطاعت کرنےکی توفیق عطا فرما۔

 

  • انجمن عین الحیات= گروه طلاب المصطفی العالمیه

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی اہم نصیحتیں

انجمن عین الحیات= گروه طلاب المصطفی العالمیه | پنجشنبه, ۲۴ خرداد ۱۴۰۳، ۱۱:۳۳ ب.ظ

 

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی اہم نصیحتیں

تحریر: سید محمد شاداب رضوی۔ متعلم جامعۃ المصطفی العالمیہ۔ قم ایران۔

 

شہادت حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کے موقع پر تمام عاشقان اہل بیت علیہم السلام کی خدمت میں تعزیت و تسلیت کے ساتھ امام علیہ السلام کی بعض اہم نصیحتیں پیش خدمت ہیں:

الف۔ شیطان سے ہوشیار رہنے کے مواقع:

جب نوح علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی قوم کے لئے بد دعا کی تو ابلیس ان کے پاس آیا اور کہا؛ اے نوح! مجھے تین جگہوں پر کبھی فراموش نہ کرنا ۔ کیونکہ میں ان تین جگہوں میں سے کسی ایک جگہ پر  بندوں سے زیادہ قریب ہوں:

 ۱۔ جب بھی غصہ آئے مجھے یاد رکھنا۔  

 ۲۔ جب دو لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنا تو مجھے یاد رکھنا

۳۔ جب بھی آپ کسی نا محرم عورت کے ساتھ اکیلے ھوں اور آپ کے ساتھ کوئی نہ ھو تو مجھے یاد رکھنا۔

نتیجہ:

امام باقر علیہ السلام   کے ارشاد سے پتہ چلتا ھے یہ تین مقامات وہ ہیں جہاں شیطان انسان پر غلبہ پاکر اسے گمراہ کرسکتا  ہے لہذا ہمیں خاص کر ایسی جگہ ذکر پروردگار کرنا چاہیے تاکہ ہم اس کے مکر و  فریب سے نجات پا سکیں۔ ]الخصال: 132/140[۔

 

ب۔ قبر میں کام آنے والے چھ خوبصورت چہرے:

ابو بصیر امام باقر (ع) سے  نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: جب مومن کا جسم قبر میں رکھا جاتا ہے تو اس کے ساتھ چھ خوبصورت چہرے قبر میں داخل ہوتے ہیں۔  ان میں سے

پہلا دائیں طرف کھڑا ھوتا ہے

دوسرا اس کے بائیں جانب 

تیسرا اس کے روبرو

چوتھا اس کے پشت سر کھڑا ھوتا ھے

پانچواں اس کے پائینتی کھڑا ھوتا ہے۔

(چھٹا) جو ان میں سے  سب سے زیادہ خوبصورت ہے اس کے سرھانے کھڑا ھوتا ہے۔

اور سب سے خوبصورت چھرہ  دوسرے پانچ چہروں سے پوچھتا ہے: تم کون ہو؟ 

جو میت کے دائیں طرف ہے وہ کہتا ہے: میں نماز ہوں۔

اور میت کے بائیں طرف والا کہتا ہے: میں زکات ہوں۔

 اور روبرو والا کہتا ہے: میں روزہ ہوں۔

اور پشت سر والا کہتا ہے: میں حج اور عمرہ  ہوں۔

اور جو پائینتی کھڑا ہے کہتا ہے: میں وہ ہوں جس نے اپنے دینی بھائیوں کے ساتھ اچھا سلوک کیا۔

پھر وہ پانچ چہرے اس روشن چہرے سے جو سب سے زیادہ خوبصورت اور خوشبودار ھے  پوچھتے ہیں: تم کون ہو، تو وہ جواب دیتا ہے"انا الولایة آل محمد ص"  میں ولایت آل محمد ھوں۔ ]بحار الانوار، جلد 6: 134[۔

امام باقر علیہ السلام کے ارشاد کی روشنی میں نماز، زکات کی پابندی، روزہ ، حج و عمرہ ، لوگوں کے ساتھ نیک برتاو اور سب سے اہم ولایت اہل بیت علیہم السلام وہ اہم چیزیں ہیں جو ہماری نجات کی ضامن ہیں۔ اورموت کے بعد قبر اور اس کے بعد کے مراحل کے لئے کام آنے والے ہیں لہذا ہمیں ان سب چیزوں کاسب سے زیادہ دھیان رکھنا چاہئے۔

 

ج۔ دنیا کے بہترین کام:

امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:

 جو شخص ان تین حالتوں میں سے کسی ایک کے لیے دنیا کا طالب ہو:

 1- لوگوں سے بے نیازی کے لیے،

 2 - گھر والوں کی آرام و اسائش کے لیے،

3- اپنے پڑوسیوں کی مدد کے لیے.

 تو قیامت کے دن وہ اس حالت میں محشور ہو گا اور اللہ تعالیٰ سے ملاقات کریگا  کہ اس کا  چہرہ چودھویں رات کے چاند کی طرح چمک رھا  ھوگا ۔  ]وسائل الشیعہ، ج17، ص21[

 

 

 

  • انجمن عین الحیات= گروه طلاب المصطفی العالمیه

بہت بڑے گدھے ہو ! ! !

انجمن عین الحیات= گروه طلاب المصطفی العالمیه | يكشنبه, ۲۰ خرداد ۱۴۰۳، ۰۹:۲۲ ب.ظ

 

 

بہت بڑے گدھے ہو ! ! !

 تحریر: سید تعلیم رضا جعفری۔ متعلم جامعۃ المصطفی العالمیہ۔ قم ایران۔

 

انسان کے اندر پائی جانے والی ایک خصلت جو اس کو جہنمی بنا دیتی ہے وہ "تکبر و غرور" ہے؛ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: "جس شخص کے دل میں تکبر و غرور کا ایک ذرہ بھی ہوگا وہ جنت میں داخل نہیں ہوسکتا ہے" [وسائل الشیعہ، ج۱۵، ص۳۷۵]۔

ہمیں اس بیماری سے حتما دور رہنا چاہئے اس لئے کہ اس بیماری میں جو شخص مبتلا ہوجاتا ہے وہ اپنے آپ کو دوسروں سے کسی بھی لحاظ سے بڑا سمجھنے لگتا ہے ہو سکتا ہے انسان کبھی کبھی مال و دولت و منصب و مادیات کی وجہ سے غرور و تکبر کرنے لگے لیکن کبھی یہ ہوسکتا ہے کہ انسان کبھی کبھی اپنے آپ کے اچھے و نیک ہونے و عبادت گزار و صاحب علم و فضل ہونے اور دوسروں کے گنہگار و نیکیوں سے دور ہونے اور کم علم و کم فضل ہونے کے لحاظ سے برتر بینی و غرور کا شکار ہوجائے اور ایسے وقت پر سامنے والا شخص جو گنہگار ہو وہ توبہ کرلے اور اس کا انجام خیر و نیکی پر ہوجائے لیکن ہم غرور و تکبر کی وجہ سے بدبختی کے شکار ہوجائیں۔

ایک داستان اور ایک حقیقت:

شیطان کے بارے میں بیان ہوا ہے "تکبر و غرور" ہی لے ڈوبا تھا چنانچہ روایت نقل ہوئی ہے کہ جب پیامبر اکرم[ص]، معراج پر تشریف لے جاکر واپس لوٹے تو دوسرے دن شیطان آپ کی خدمت میں آیا اور عرض کیا: یا رسول اللہ[ص]، جب آپ کل رات معراج پر تشریف لے گئے تھے تو چوتھے آسمان پر دائیں طرف ایک منبر تھا جو جلا ہوا اور ٹوٹا پڑا تھا، کیا آپ نے اس منبر کو پہچانا کہ وہ کس کا ہے؟

آنحضرت[ص]، نے فرمایا: نہیں تم ہی بتاو وہ کس کا ہے؟

شیطان نے عرض کیا: وہ منبر میرا ہے، اور اس پر بیٹھنے والا میں تھا، میں اس پر بیٹھتا تھا اور ملائکہ کو درس دیا کرتا تھا، ملائکہ میرے منبر کے اطراف میں آکر بیٹھتے تھے اور میں ان کو خدای متعال کی بندگی کے طریقے سکھاتا تھا۔ ملائکہ میری عبادت و بندگی سے تعجب کرتے تھے، جب بھی میرے ہاتھ سے تسبیح گر جاتی تھی تو ہزاروں کی تعداد میں ملک آگے بڑھتے تھے اور اس کو چومتے ہوئے میرے ہاتھ میں دیتے تھے۔ میرا یقین تھا کہ خداوندعالم نے مجھ سے بہتر کسی چیز کو نہیں پیدا کیا ہے لیکن میں نے اچانک دیکھا کہ میری یہ سوچ الٹی ہوگئی اور میں خدا کی بارگاہ سے بھگا دیا گیا اور اب خدا کی بارگاہ میں مجھ سے بڑا ملعون و بدتر کوئی نہیں ہے۔

اے محمد[ص]، کبھی مغرور نہ ہونا، کبھی تکبر نہ کرنا اس لئے کہ کوئی بھی خدا کے کاموں سے آگاہ نہیں ہے۔

اسی طرح شیطان، جناب یحیی علیہ السلام سے ملاقات میں عرض کرتا ہے کہ:

میں ملائکہ میں شمار کیا جاتا تھا، چار ہزار سال تک میں نے ایک سجدے سے سر نہیں اٹھایا تھا لیکن میرا انجام یہ ہوا کہ میں ملائکہ کی صفوں سے بھگا دیا گیا، اور اللہ کی بارگاہ میں مردود و ملعون قرار پایا۔

[کتاب خزینۃ الجواہر، ص۶۴۶]۔

مذکورہ باتوں اور داستان سے معلوم ہوتا ہے کہ چاہے انسان جتنا بھی مادیات و معنویات کے لحاظ سے بڑا ہو "غرور و تکبر" آجائے تو اللہ کی بارگاہ معلون و مردود ہوجاتا ہے اور مغرور و متکبر شخص کا انجام بھی یہی ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کی نگاہوں میں بھی چھوٹا اور پست ہی سمجھا جاتا ہے۔

ایک لطیفہ:

ایک متکبر شخص جو اپنے لئے صاحب مقام ہونے کا خیال رکھتا تھا، ایک دن امام رضا علیہ السلام کے حرم میں سوچ رہا تھا دیکھوں امام کی بارگاہ میں میرا کیا مقام ہے؟

اس نے اپنے دل میں کہا: میرے بارے میں پہلا کلمہ جو کوئی مجھ سے آکر کہے گا وہی میرے مقام و منزلت کو بیان کرنے والا ہوگا۔

وہ شخص اسی طرح سوچ میں ڈوبا ہوا کھڑا اپنی بیوی کا انتظار کر رہا تھا کہ اس کے پاس سے ایک خاتون گزری، اس نے اپنی بیوی ہونے کے خیال سے اس خاتون سے کہا: رکو رکو ساتھ میں گھر چلتے ہیں، اس خاتون نے پلٹ کر کہا: "بہٹ بڑے گدھے ہو"۔ اس شخص نے یہ جملہ سن کر شک کیا کہ اس خاتون کا جملہ میرے مقام و منزلت کو بیان کرنے والا ہے یا نہیں۔ خاتون نے فورا پلٹ کر کہا: "شک نہ کرو، بہت بڑے گدھے ہو"۔

 

 

  • انجمن عین الحیات= گروه طلاب المصطفی العالمیه

حضرت امام علی(ع) حضرت فاطمہ زہرا(س) کی ازدواجی زندگی سے اہم سبق (2)

انجمن عین الحیات= گروه طلاب المصطفی العالمیه | شنبه, ۱۹ خرداد ۱۴۰۳، ۰۹:۴۶ ب.ظ

 

حضرت امام علی(ع) حضرت فاطمہ زہرا(س) کی ازدواجی زندگی سے اہم سبق(2)

تحریر: سید مہدی رضا رضوی۔ متعلم جامعۃ المصطفی العالمیہ- قم ایران

 

پہلی ذی الحجه

حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا اور حضرت علی علیہ السلام کی شادی شیعہ تاریخ کے اہم ترین واقعات میں سے ایک ہے کیونکہ شیعہ ائمہ کا سلسلہ اسی شادی کا ثمر ہے۔ بعض احادیث کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے وحی الٰہی سے حضرت علی علیہ السلام کی شادی کی۔ اس شادی کی تاریخ کے بارے میں کئی آراء ہیں اور مشہور قول کے مطابق یہ شادی ہجرت کے دوسرے سال ذی الحجہ کی پہلی تاریخ میں ہوئی جبکہ آپ دونوں کے درمیان نکاح کے صیغے پیغمبر اکرمؐ نے پہلے ہی جاری کر دیئے تھے۔ بعض محققین کے مطابق عقد کے دس مہینے بعد رخصتی ہوئی تھی۔ حدیثی کتابوں کے مطابق حضرت علیؑ سے پہلے مہاجرین و انصار میں سے کئی شخصیات نے پیغمبر اکرمؐ سے حضرت فاطمہؑ زہرا سلام اللہ علیہا کا رشتہ مانگا تھا لیکن پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان رشتوں کی مخالفت فرمائی اور فرمایا یہ امر خدا پر ہے یعنی خدا کی مرضی کے مطابق یہ شادی ہونا ہے۔

شادی کے انتظامات:

حضرت زہرا (س) سے اجازت ملنے کے بعد رسول خدا (ص) امیر المومنین علی (ع) کے پاس تشریف لائے اور مسکراتے ہوئے فرمایا: اے علی! کیا تمہارے پاس شادی کے لیے کچھ ہے؟ آپ نے جواب دیا: اے رسولخدا، میرے والدین آپ پر قربان، آپ میری حالت سے خوب واقف ہیں۔ میرا سارا مال ایک تلوار، ایک زرہ اور ایک اونٹ پر مشتمل ہے۔ آپ نے فرمایا: تم جنگ اور جہاد کے آدمی ہو، اور تم کو خدا کی راہ میں تلوار تمہاری ضروریات میں سے ہے۔ اونٹ کو بھی آپ کی زندگی کی ضروریات میں سے ایک سمجھا جاتا ہے، آپ کو اسے اپنے اور اپنے خاندان کے معاشی معاملات کو پورا کرنے، اپنے خاندان کے لیے روزی کمانے، اور اپنے سفر کے دوران اپنا سامان لے جانے کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔ میں تجھ پر سختی نہیں کروں گا اور میں اسی زرہ پر اکتفا کروں گا۔(زندگانی حضرت زهرا سلام الله علیها، ص ۴۰۹)

امیر المومنین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے حکم سے زرہ بیچی اور رقم اس بزرگ کو پیش کی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے اس رقم کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا، اس میں سے ایک حصہ جہیز کے طور پر خریدنے کے لیے استعمال کیا گیا اور دوسرا حصہ عطریات کی تیاری کے لیے استعمال کیا، اور تیسرا حصہ ام سلمہ علیہا السلام کو دیا تاکہ جب شادی کی رات آئے تو وہ اسے امیر المومنین کو واپس کر دیں تاکہ وہ اپنے مہمانوں کی مہمان نوازی کر سکیں۔ (محمد کاظم قزوینی ، فاطمه زهرا سلام الله علیها از ولادت تا شهادت، ص ۱۸۹)

خطبہ نکاح

ابن شہر آشوب نے مناقب آل ابی طالب میں لکھا ہے کہ حضرت فاطمہ علیہا السلام کی شادی کے وقت رسول خدا ؐمنبر پر گئے خطبہ ارشاد فرمایا اس کے بعد لوگوں سے مخاطب ہو کر فرمایا:

خدا نے مجھے حکم دیا ہے کہ فاطمہ ؑ کا نکاح علیہ السّلام کے ساتھ کروں اور اگر علی راضی ہوں تو چار سو مثقال چاندی حق مہر کے ساتھ میں فاطمہ ؑ کا نکاح علیؑ کے ساتھ کر دوں۔ علیؑ نے فرمایا میں اس پر راضی ہوں۔(مناقب آل ابی طالب، ج۳، ص۳۵۰)

بعض روایات کے مطابق حضرت فاطمہ کی موجودگی میں خدا نے حضرت علی کیلئے دوسری شادی حرام قرار دی تھی اسی لئے حضرت فاطمہ کی زندگی میں آپ نے دوسری شادی نہیں کی۔

حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا مہر:

حضرت زہراؑ کے مہریے کے بارے میں مختلف اعداد و شمار منقول ہیں۔ 400 سے 500 درہم کے درمیان آپ کا مہر تھا جو شیعوں کے یہاں مہر السنہ کے نام سے معروف ہے۔ احادیث کے مطابق امام علیؑ نے اپنی زرہ بیچ کر حضرت زہراؑ کا مہر ادا کیا۔ لہذا اس امر میں بھی ہم کو سہولت اور آسانی سے کام لینا چاہیے۔

اسکے علاوہ اللہ نے جو مہر قرار دیا اس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے فرمایا: فاطمہ سلام اللہ علیہا کا مہر آسمان پر زمین کا پانچواں حصہ مقرر ہے، پس جو کوئی فاطمہ اور ان کی اولاد سے بغض رکھتا ہے وہ قیامت تک زمین پر حرام چلتا رہے گا۔ ایک اور روایت میں امام باقر علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا کہ فاطمہ کا مہر دنیا کا پانچواں حصہ، ایک تہائی آسمان، چار نہریں ہیں: فرات، مصر میں دریائے نیل، نہروان اور دریائے بلخ۔ (زندگانی حضرت زهرا سلام الله علیها، ص ۳۵۸)

ولیمہ

شادی کی رسومات میں سے ایک رسم مہمانوں کو کھانا کھلانا ہے جس میں مومنین کافی خرچ کرتے ہیں بالخصوص لڑکی والوں کے لیے یہ بہت سخت اور دشوار کام ہے جسمیں اکثرو بیشتر لڑکی کا باپ مقروض ہوجاتا ہے،  لیکن اہل بیت علیہم السلام کی سیرت میں ہمیں اس رسم کے لیے برعکس ملتا ہے۔

امیر المومنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: اے علی! اپنی شادی اور خاندان کے لیے کافی کھانا تیار کریں۔ پھر فرمایا: میں گوشت اور روٹی دوں گا، کھجور اور تیل تمہارے ذمہ ہے۔ میں نے کھجوریں اور تیل تیار کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے پاس لے گیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے اپنے کپڑوں کی آستینیں لپیٹیں اور کھجوریں صاف کیں اور انہیں تیل میں ڈال کر "حیس" نامی کھانا تیار کیا اور ایک موٹی بکری ذبح کی اور بہت سی روٹی تیار کی، پھر مجھے فرمایا: آپ جسے چاہیں دعوت کریں۔ (محمد کاظم قزوینی ، فاطمه زهرا سلام الله علیها از ولادت تا شهادت، ص 346))

امیر المومنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں: چنانچہ میں مسجد میں داخل ہوا اور دیکھا کہ مسجد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب سے بھری ہوئی ہے، میں نے کہا: میں آپ سب کو شادی کی دعوت دیتا ہوں۔ گروہ گروہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے گھر کی طرف بڑھ گئے، اور میں لوگوں کی بڑی تعداد اور بہت کم کھانے سے شرمندہ ہوا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو میرے ذہن میں کیا چل رہا تھا اس کی خبر ہوئی تو آپ نے فرمایا: اے علی! میری دعا ہے کہ اللہ آپ کے کھانے میں برکت عطا فرمائے... (محمد کاظم قزوینی ، فاطمه زهرا سلام الله علیها از ولادت تا شهادت ، ص 364- 365 )

جہیز

جیسا کہ مشہور ہے امام علیؑ نے حق مہر کی ادائیگی کے لئے زرہ فروخت کی تھی۔ جب رقم پیغمبرؐ کو دی تو آپؐ نے اس رقم کو گنے بغیر کچھ رقم بلال کو دی اور فرمایا: اس رقم سے میری بیٹی کے لئے اچھی خوشبو خرید کر لے آؤ! اور باقی بچی رقم ابوبکر کو دی اور فرمایا: اس سے کچھ گھر کی اشیاء جن کی ضرورت میری بیٹی کو ہوگی وہ تیار کرو۔ پیغمبرؐ نے عمار یاسر اور کچھ اور صحابہ کو بھی ابوبکر کے ساتھ بھیجا تا کہ وہ حضرت زہراءؑ کے جہیز کے لئے کچھ اشیاء تیار کریں۔

شیخ طوسی نے جہیز کی فہرست یوں لکھی ہے:

ایک قمیض جس کی قیمت 7 درہم تھی

برقعہ 4 درہم میں

خیبر کی تیار کردہ عبا

کجھور کے پتوں سے بنی چارپائی

دو بچھونے جن کا بیرونی کپڑا موٹے کتان کا تھا ایک کجھور کی چھال سے اور دوسرا بھیڑ کی اون سے بھرا ہوا تھا

طائف کے تیار کردہ چمڑے کے چار تکیے جنہیں اذخر (مکی گھاس، بوریا (چٹائی) کی تیاری میں استعمال ہوتی ہے، اس کے پتے باریک ہیں جو طبی خصوصیات کی حامل ہیں) سے پر کیا گیا تھا۔

اون کا ایک پردہ

ہجر میں بنی ایک چٹائی (گویا ہجر سے مراد بحرین کا مرکز ہے نیز ہجر مدینہ کے قریب ایک گاؤں کا نام بھی تھا)

ایک دستی چکی

تانیے کا طشت

چمڑے کا مشکیزہ

لکڑی کا بنا ڈونگا

دودھ دوہنے کے لئے گہرا برتن

پانی کے لئے ایک مشک

ایک مطہرہ (لوٹا یا صراحی جسے طہارت وضو کے لئے استعمال کیا جاتا ہے) جس پر گوند چڑھایا گیا تھا

مٹی کے کئی مٹکے یا جام۔

کہا گیا ہے کہ شادی کے بعد ایک حاجت مند عورت نے جب حضرت فاطمہؑ سے کچھ مانگا تو آپؑ نے اپنا شادی کا جوڑا اسے دے دیا۔(شوشتری، احقاق الحق، ج۱۰، ص۴۰۱)

پیغمبر اکرم (ص) کی دعا

شادی کے ولیمے کے بعد رسول خداؐ علیؑ کے ہمراہ گھر میں داخل ہوئے اور فاطمہؑ کو آواز دی۔ جب فاطمہؑ نزدیک آئیں، تو دیکھا کہ رسول اللہؐ کے ساتھ حضرت علیؑ بھی ہیں۔ رسول اللہؐ نے فرمایا: نزدیک آجاؤ۔ فاطمہؑ اپنے بابا کے نزدیک آئیں۔ رسول اللہؐ نے حضرت علیؑ اور حضرت فاطمہؑ کے ہاتھ کو پکڑا اور جب فاطمہؑ کا ہاتھ علیؑ کے ہاتھ میں دیا تو فرمایا: خدا کی قسم میں نے تمہارے حق میں کوئی کوتاہی نہیں کی اور تمہاری عزت کی اور اپنے خاندان کے بہترین فرد کو تمہارے لئے انتخاب کیا خدا کی قسم تمہاری شادی ایسے فرد سے کر رہا ہوں جو دنیا اور آخرت میں سید و آقا اور صالحین سے ہے ۔۔۔ اپنے گھر کی طرف جائیں۔ خداوند یہ شادی آپکے لئے مبارک فرمائے اور آپکے کاموں کی اصلاح فرمائے۔(یوسفی غروی، محمد ہادی؛ موسوعۃ التاریخ الاسلام، ج۲، ٢١٤)

رسول خداؐ نے اسماء بنت عمیس سے فرمایا: ایک برتن میں میرے لئے پانی لے آؤ اسماء فوراً گئیں اور ایک برتن پانی کا بھر کر لے آئیں۔ آپؐ نے پانی کا ایک چلو بھرا اور اسے حضرت فاطمہؑ کے سر پر ڈالا اور پھر ایک چلو بھرا اور آپؑ کے ہاتھوں پر ڈالا اور کچھ پانی آپؑ کی گردن اور بدن پر ڈالا۔ پھر فرمایا: خدایا فاطمہ مجھ سے ہے اور میں فاطمہ سے ہوں۔ پس جس طرح ہر پلیدی کو مجھ سے دور کیا اور مجھے پاک و پاکیزہ کیا ہے اسی طرح اس کو بھی پاک و طاہر کر دے۔ اس کے بعد فاطمہؑ سے فرمایا: یہ پانی پئیں اور اس سے اپنے منہ کو دھوئیں اور ناک میں ڈالیں اور کلی کریں۔ پھر پانی کا ایک اور برتن طلب کیا اور علیؑ کو بلایا اور یہی عمل دہرایا اور آپؑ کے لئے بھی اسی طرح دعا فرمائی اور پھر فرمایا:خداوند آپ دونوں کے دلوں کو ایک دوسرے کے لئے نزدیک اور مہربان کرے اور آپکی نسل کو مبارک اور آپکے کاموں کی اصلاح فرمائے۔(یوسفی غروی، محمد ہادی؛ موسوعۃ التاریخ الاسلام، ج۲، ص۲۱۵)

نتائج

ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے حضرت علی علیہ السلام اور بی بی فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی زندگی کے اصول ہمارے لیے ائیڈیل ہونا چاہیے لہذا اخر میں ہم اپ کے لیے چند نتائج بیان کرنا چاہتے ہیں

نمبر ایک:

 ان دونوں ہستیوں کی زندگی سے ہمیں یہ سمجھ میں آتا ہے کہ لڑکے اور لڑکی دونوں کی لیے شادی میں کسوٹی معیار اور ملاک دین ایمان اور اخلاقی چیزوں کو ہونا چاہیے

 نمبر دو:

شادی بیاہ میں بچوں پر اپنی مرضی نہ تھوپی جائے بلکہ ان کی مرضی کا بھی دھیان رکھا جائے باپ یہ نہ سوچیں کہ وہ باپ ہے اس لیے مالک ہے اب بیٹی سے پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے جب حضرت علی علیہ السلام رشتے کے لیے رسول اللہ کے پاس ائے تو آپ جانتے تھے کہ زہرا سلام اللہ علیہا اس رشتے سے راضی ہیں لیکن پھر بھی آپ نے کہا کہ میں فاطمہ کی ان کی مرضی معلوم کرلوں۔

نمبر تین:

 حضرت علی علیہ السلام اور بی بی فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شادی بالکل سیدھے سادھے طور پر ہوئی تھی جس میں نہ فضول خرچی ہوئی نہ اسراف نہ دکھاوا تھا نہ کوئی ہلڑ ہنگامہ سادہ رسم سادہ کھانا سادہ ولیمہ سادہ پروگرام جس میں ایمان، محبت و رحمت کا سایہ ہر طرف نظر آرہا تھا۔

نمبر چار:

 حضرت علی اور بی بی فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے سادہ زندگی گزاری لیکن پیار محبت ایمان اور خدا کی اطاعت کے سائے میں گزاری۔

نمبر پانچ:

تقسیم کار یعنی کاموں میں بٹوارا باہر کے کام حضرت علی علیہ السلام نے اپنے ذمے اور گھر کے سارے کام شہزادی نے اپنے ذمے لے رکھے تھے لیکن پھر بھی حضرت علی علیہ السلام گھر کے کاموں میں بی بی سیدہ کا ہاتھ بٹاتے تھے۔

آخر میں پروردگار سے دعا ہے کہ  ہم سب کو سیرت معصومین علیہم السلام پر عمل کرنے کی توفیق دے اور سماج و معاشرے میں غیر دینی اور بے جا رائج، رسم و رواج سے ہم سب کو محفوظ رکھے۔آمین۔

  • انجمن عین الحیات= گروه طلاب المصطفی العالمیه

حضرت امام علی(ع) حضرت فاطمہ زہرا(س) کی ازدواجی زندگی سے اہم سبق (1)

انجمن عین الحیات= گروه طلاب المصطفی العالمیه | شنبه, ۱۹ خرداد ۱۴۰۳، ۰۷:۴۲ ب.ظ

 

حضرت امام علی(ع) حضرت فاطمہ زہرا(س) کی ازدواجی زندگی سے اہم سبق(1)

تحریر: سید مہدی رضا رضوی۔ متعلم جامعۃ المصطفی العالمیہ- قم ایران

 

شادی بیاہ انسان اور بشریت کی بقا اور سماج و معاشرے کی پاکیزگی کا بہترین وسیلہ ہے کیونکہ انسان فطری طور پر محبت و سکون کا خواہاں ہے اور بغیر ساتھی کے ناقص ہے چاہے پھر وہ علم و ایمان اور اخلاقی فضائل میں کتنی ہی ترقی کیوں نہ حاصل کر لے لیکن اس وقت تک کمال مطلوبہ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک کہ اپنے لیے ایک ساتھی کا انتخاب نہ کریں جو اسے محبت اور سکون بھری زندگی عطا کرے۔

خداوند عالم سورہ روم ایت نمبر 21 میں ارشاد فرماتا ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے جوڑا بنایا تاکہ تم اس سے چین و سکون حاصل کرو اور تم لوگوں کے درمیان پیار اور الفت پیدا کر دیا یا ایک جگہ پروردگار ارشاد فرماتا ہے کہ عورتیں تمہارے لیے لباس ہیں اور تم مرد عورتوں کے لیے سورہ بقرہ ایت نمبر 187 یعنی ایک دوسرے کو کامل کرنے والے ایک دوسرے کی آبرو اور راز کے محافظ ہو دونوں ایک دوسرے کے محتاج ہیں جس طرح سے انسان لباس کے بغیر معاشرے میں سر بلندی کی زندگی نہیں گزار سکتا اور ہر وقت اپنے نقص کا احساس کرے گا ویسے ہی بغیر ساتھی کے انسان مکمل نہیں ہے جسے قرآن کی تعبیر میں لباس کہا گیا ہے یعنی جس طرح سے لباس زینت کا سبب بنتا ہے ویسے ہی بہترین ساتھی بھی انسانی زندگی کے لیے ایک مکمل زینت کا سبب ہے۔

شادی ایک طبیعی اور فطری مسئلہ ہے لہذا اسلام میں اس میں بہت زیادہ تاکید کر رکھی ہے اور اس کو بشریت کی بقا کا ضامن قرار دیا ہے کیوں کہ شادی بیاہ صرف ظاہری اور مادی امور کا نام نہیں کہ میاں اور بیوی ایک دوسرے سے نزدیک ہوں بلکہ کچھ روحانی اور نسل کی بقا کی ضرورت اسی شادی پر موقوف ہے۔

دین اسلام اور شریعت محمدی میں اسے ایک خاص اہمیت حاصل ہے جسے ہم  قرآن مجید و احادیث کی روشنی میں قولی اور عملی صورت میں یوں بیان کرسکتے ہیں:

الف- قولی صورت

قرآن اور حدیث میں اقوال کی صورت کچھ مندرجہ ذیل باتوں کی طرف اشارہ ملاحظہ فرمائیں:

١- عفت اور پاکدامنی کی حفاظت

انسان کی خواہشات جب قدرتی اور فطری طریقوں سے پوری ہوتی ہے تو اس طرح سے انسان معصیت سے اور گناہوں سے دور رہتا ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم فرماتے ہیں جس نے شادی کی اس نے آدھے دین کو بچا لیا یا جو کوئی بھی چاہتا ہے کہ خدا سے پاک و پاکیزہ حالت میں ملاقات کرے وہ ضرور شادی کرے۔

 ٢- رشد تکامل

امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے: رَکعَتانِ یُصَلِّیهِما مُتَزوِّجٌ أفضَلُ مِن سَبعینَ رَکَعةٍ یُصَلِّیها غَیرُ مُتَزَوِّجٍ (بحار الأنوار ، ج 103 ، ص 219)

شادی شدہ انسان کی دو رکعت نماز غیر شادی شدہ انسان کی 70 رکعت نماز سے بہتر ہے۔

 ٣- نسل میں برکت

قال رسول الله: تَنَاکَحوا تَناسَلوا تَکثُروا فَاِنّی اُباهی بِکُمُ الاُمَمَ یَومَ القِیامَة

رسول اکرم نے فرمایا شادی کرو اور صاحب اولاد ہو جاؤ اور اس طرح اپنی تعداد میں اضافہ کرو کیونکہ میں قیامت میں دوسری امتوں کے درمیان افتخار کروں گا (جامع الأخبار، تاج الدین شعیرى‏، ص۱۰۱)

 ٤- اطاعت الہی میں مددگار اور حصول ثواب

   ایک مومن انسان اگر ایک مومنہ اور با سلیقہ بیوی رکھتا ہو تو وہ اطاعت الہی اور حصول ثواب میں اس کے لیے مددگار ہے بلکہ اپنی خواہش کو جائز طریقے سے پوری کرنا ثواب اور اجر کا باعث ہے جیسا کہ حضرت ابوذر غفاری نے رسول خدا کی خدمت میں عرض کی، کیا یہ ممکن ہے کہ ہم لوگ اپنی زوجہ کے ساتھ نزدیکی کر کے لذت حاصل کریں اور آخرت میں ہمارا یہ کام ثواب کا باعث بھی بنے؟ رسول خدا نے فرمایا اگر ایسے کام کو ناجائز طریقے سے انجام دے تو کیا گنہگار نہ ہوں گے؟ جناب ابوذر نے عرض کی: ہاں گنہگار ہونگے تب رسول خدا صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے فرمایا تو اگر جائز طریقے سے انجام دو گے تو اجر و ثواب کے مستحق ہو گے۔

٥- محبت، انس اور سکون کی ضرورت کا پورا ہونا

وَمِنْ آیَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِنْ أَنْفُسِکُمْ أَزْوَاجًا لِتَسْکُنُوا إِلَیْهَا وَجَعَلَ بَیْنَکُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً ۚ (روم/٢١)

معصومین علیہم السلام کی تعلیمات میں شادی بیاہ کے سلسلے سے احادیث اور روایات کے علاوہ خود معصومین علیہم السلام کی ازدواجی زندگی ہمارے لیے ایک بہترین ائیڈیل اور نمونہ ہے۔ جس میں سے خود حضرت علی علیہ السلام اور فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے ازدواجی زندگی قیامت تک کے لیے انسانوں کے لیے ایک بہترین نمونہ ہے جسے ہم مختصر طور پر قارئین کے لیے پیش کر رہے ہیں۔

ب: عملی صورت

اس میں کوئی کوئی شک نہیں کہ اہل بیت علیہم السلام، ہدایات اور نصیحتوں پہ پہلے خود عمل پیرا نہ ہوں لہذا تاریخ اور احادیث میں ایسے نمونے مل جائیں گے جس میں اگر کوئی حلال چیز کے لیے بھی کسی کو روکا تو پہلے اس پر خود عمل کیا اس کے بعد کسی کو منع کیا ہے مثال کے طور پر خرمے اور بچے کا واقعہ۔

لیکن اس مقالے کے مجال اور نوشتے کے اختصار کو دیکھتے ہوئے ان تمام واقعات اور نمونوں سے گریز کرتے ہوئے اصل موضوع "مرج البحرین" یعنی امام علی علیہ السلام اور فاطمہ زہرہ سلام اللہ علیہا کی شادی کے عنوان سے کچھ باتوں کی طرف اشارہ کرنا مقصود و مطلوب ہے۔

(مقالہ جاجاری ہے  ..... باقی قسط دوم میں پڑھیں)

  • انجمن عین الحیات= گروه طلاب المصطفی العالمیه

حضرت امام جواد علیہ السلام علماء اہل سنت کی نگاہ میں

انجمن عین الحیات= گروه طلاب المصطفی العالمیه | پنجشنبه, ۱۷ خرداد ۱۴۰۳، ۱۱:۳۷ ب.ظ

 

 

حضرت امام جواد علیہ السلام علماء اہل سنت کی نگاہ میں

تحریر: سید محمد شاداب رضوی ۔ متعلم جامعۃ المصطفی العالمیہ۔ قم ایران۔

 

امام جواد علیہ السلام نے نہ صرف شیعوں کو اپنے حسن و جمال کا دیوانہ بنایا ہے بلکہ سنی علماء کو بھی  اپنا گرویدہ بنا دیا. علماء اھل سنت اپنے تاریخی اور حدیثی منابع میں، جس قدر ان کا ایمان اور علم ہے، انہوں نے حق کے لیے اپنی زبانیں کھولی اور شیعوں کے نویں امام حضرت جواد ع کی شخصیت کو یوں بیان کیا ہے:

۱۔ ابن جوزی حنفی (متوفی 654ھ):

"و محمد، الامام ابوجعفر الثانی کان علی منهاج أبیه فی العلم و التقی و الزهد و الجود..." یعنی محمد، ابو جعفر ثانی، اپنے والد (علی ابن موسیٰ الرضا) کی طرح عالم، متقی، زاھد اور سخی تھے.( التذکرة، ابن الجوزی)

۲۔ کمال الدین محمد بن طلحہ شافعی (متوفی 652ھ):

"... و ان کان صغیر السّنّ فهو کبیر القدر، رفیع الذّکر..." یعنی  اپنی کم عمری کے باوجود وہ ایک قابل قدر اور مشہور شخصیت تھے۔( مطالب السّؤول، ابن طلحه شافعی، ص 239؛ الفصول المهمّه، ص 252.)

۳۔ شمس الدین ذہبی (748ھ):

 "کان محمّد یلقّب بالجواد و بالقانع والمرتضی، ... و کان أحد الموصوفین بالسّخاء فلذلک لقّب بالجواد..."  یعنی محمد کا لقب جواد، قانع اور مرتضی رکھا گیا تھا، اور وہ ان لوگوں میں سے تھے جنہیں ان کی سخاوت کی وجہ سے "جواد" کا لقب دیا گیا.( الوافی بالوفیات، ج 4، ص 105.)

۴۔ ابن تیمیہ حرانی دمشق (758ھ):

 "محمد بن علی الجواد کان من اعیان بنی هاشم و هو معروف بالسخاء و السؤدَد و لهذا سُمّی الجوادُ... " یعنی محمد بن علی "الجواد" بنی ہاشم کے بزرگوں میں سے ہیں اور وہ اپنی سخاوت، فیاضی اور مہربانی میں مشہور تھے اور اسی وجہ سے انہیں "جواد" کہا جاتا ہے۔ (منهاج السنه، ابن تیمیه، ص 127.)

۵۔ ابن سباغ مالکی (متوفی 855ھ):

 "و هو الامام التّاسع... عُرف بأبی جعفرالثانی، و إن کان صغیرالسّنّ فهو کبیر القدر، رفیع الذّکر، القائم بالامامة بعد علیّ بن موسی الرّضا..." یعنی وہ شیعوں کے نویں امام ہیں۔ ابو جعفر ثانی کے نام سے مشہور ہیں اور کم عمر ھونے کے باوجود ان کا بڑا مقام و مرتبہ و  شہرت تھی اور وہ علی بن موسیٰ الرضا علیہ السلام کے بعد امامت پر پہنچے تھے۔ (الفصول المهمّه، ص 251.)

۶۔ عبداللہ بن محمد بن عامر شبروی شافعی (متوفی 1172ھ):

 امام رضا علیہ السلام کی اولاد کے بارے میں فرماتے ہیں:" ... اجلّهم و اشرفهم التاسع من الائمة محمد الجواد ... و کراماته رضی الله عنه کثیرة و مناقبه شهیرة..." یعنی ان میں سب سے بڑے اور بزرگ، شیعوں کے نویں امام محمد جواد تھے... اور ان کی کرامات بہت ہیں، اور ان فضائل مشہور ہیں۔(الاتحاف بحبّ الاشراف، ص 347.)

 

 

  • انجمن عین الحیات= گروه طلاب المصطفی العالمیه

حضرت امام جواد علیہ السلام سے متعلق چند اہم واقعات

انجمن عین الحیات= گروه طلاب المصطفی العالمیه | پنجشنبه, ۱۷ خرداد ۱۴۰۳، ۱۱:۲۱ ب.ظ

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

حضرت امام جواد علیہ السلام سے متعلق چند اہم واقعات

تحریر: سید محمد شاداب رضوی ۔ متعلم جامعۃ المصطفی العالمیہ۔ قم ایران۔

 

۱۔ "دعا وہی ہے جو دل سے کبھی نکلتی ہے"۔

ابا صلت  جو کہ امام رضا علیہ السلام کے قریبی اصحاب میں سے تھے کہتے ہیں: امام رضا علیہ السلام کی شہادت کے بعد مجھے مامون کے حکم سے قید کر دیا گیا۔ اور میں ایک سال تک قید میں رہا اور میں نے اپنے تمام دوست و احباب سے  جو دربار میں اثر و رسوخ رکھتے تھے مدد مانگی لیکن کوئی فائدہ نہ ھوا باہر نکلنے کے سبھی راستے بند ھو چکے تھے آخر کار جب میں سب سے نامید ھو گیا تو  ایک رات  میں نے حضرت محمد (ص) و  آل محمد اور امام جواد ع  سے توسل کیا اور مدد مانگی۔ ابھی دعا کرتے ہوئے ایک لمحہ بھی نہیں گزرا تھا کہ میں نے حضرت جواد(ع) کو قید خانے میں اپنے سامنے دیکھا  امام ع نے فرمایا بہت پریشان ھو ؟ میں  نے کہا: جی ،اے فرزند رسول اسکے بعد خود بخود میرے پاؤں کی زنجیر کھل گئی ۔ امام ع  نے میرا ہاتھ پکڑا اور ہم ایک ساتھ بند دروازوں سے گزرے اسطرح کہ افسران ہمیں دیکھ رھے تھے، لیکن کسی میں حرکت کرنے کی طاقت اور صلاحیت نہیں تھی۔ جب ھم زندان سے دور ھو گئے تو امام (ع) نے فرمایا: اب وہ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے اور مامون تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکتا اور ایسا ہی ہوا۔ مامون کچھ دن بعد مر گیا   اور میں اس سے ہمیشہ کے لیے چھٹکارا پا گیا، الوداع کہنے سے پہلے میں نے امام سے  پوچھا: اس ایک سال میں آپ میرے پاس کیوں نہیں آئے؟ جبکہ میں نےآپ کو بہت یاد کیا، امام ع نے جواب دیا: تم نے کب مجھے خلوص دل سے بلایا ؟ اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی۔ پھر میں نے اپنے گزشتہ ایک سال پر نظر ڈالی، میں نے دیکھا کہ اس رات کے سوا پچھلے ایک سال میں میں نے کبھی بھی امام ع کو  خلوص دل سے یاد نہیں کیا، صرف زبان سے امام کو بلاتا تھا مگر امید ان دوستوں سے تھی جو دربار مامون میں تھے جب سب سے نا امید ھو گیا اور امام ع سے توسل کیا تو آپ ع نے فورا میری مدد کی.

نتیجہ : ھمیں اپنی زندگی کی تمام مشکلات میں صرف معصومین علیهم السلام سے ھی  خلوص دل سے دعا و  توسل کرنا چاہیے کیونکہ پوری دنیا میں فقط اھلبیت ع ھی حلّال مشکلات ہیں ۔ (عیون اخبار الرضا علیہ السلام؛ ج 2، ص 245۔ بحار الانوار؛ ج 50; صفحہ 52 - جلد 49، ص 300)۔

۲۔ ماں کی توہین ناقابل فراموش

زکریا بن آدم بیان کرتے ہیں؛ کہ میں امام رضا علیہ السلام کی خدمت میں تھا جب حضرت جواد علیہ السلام جن کی عمر اس وقت چار سال سے کم تھی اپنے والد کی خدمت میں لائے گئے ۔ میں نے دیکھا کہ اس چھوٹے بچے نے اپنا ہاتھ زمین پر رکھا اور چہرہ مبارک آسمان کی طرف اٹھایا اور کچھ دیر اسی طرح سوچتا رہا۔

امام رضا علیہ السلام اپنے بیٹے کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: میرے لال، تم کیا سوچ رہے ہو؟ انہوں نے کہا کہ میں اس ظلم کے بارے میں سوچ رہا ہوں جو انہوں نے میری والدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے ساتھ کیا تھا، خدا کی قسم میں ان دونوں ملعونوں کو قبر سے نکال کر جلا دوں گا اور ان کی راکھ کو سمندر میں پھینک دونگا ۔"

حضرت رضا علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو گلے لگایا اور اس کی مبارک پیشانی کو چوما، پھر فرمایا؛ میرے والدین تم پر قربان ھو جائیں میرے بعد تم ہی امامت کے لائق ھو۔  (بحار الانوار، جلد 50، صفحہ 59)

۳۔ بولتی بند

 مامون رشید نے امام جواد علیہ السلام سے کہا:

"عالم اھل سنت یحییٰ بن اکثم  سے ایک سوال پوچھیں ۔"

امام علیہ السلام نے پوچھا: ایک آدمی نے صبح کے وقت ایک عورت کی طرف دیکھا، وہ عورت اس کے لیے حرام تھی، دوپہر کے قریب اس کے لیے جائز ہو گئی، جب دوپہر ہوئی تو پھر اس کے لیے حرام ہو گئی، رات کو پھر حلال ہو گئی۔ آدھی رات کے وقت اس کے لیے حرام ہو گئی،صبح پھر اسکے لئے حلال ھو گئی. کیا آپ مجھے اس کا مطلب بتا سکتے ہیں ؟

یحییٰ نے ٹھوڑی دیر سر کو جھکایا اور کہا میں نہیں جانتا۔"

امام نے فرمایا: "یہ عورت کسی اور کی کنیز تھی، جب یہ آدمی اسے دیکھتا ہے تو اس کی نظر حرام ہوتی ہے، پھر اسے خرید لیتا ہے، یہ حلال ہو جاتی ہے، وہ دوپہر کے قریب اسے آزاد کر دیتا ہے، پھر اس کے لیے حرام ہو جاتی ہے۔ شام کے وقت اس سے نکاح کرتا ہے حلال ھو جاتی ہے آدھی رات میں ظھار کرتا ہے تو حرام ھو جاتی ہے صبح کو ظھار کا کفارہ دیتا ہے، پھر وہ حلال ہو جاتی ہے۔"  (کشف الغّمه، ج ۳، ص ۲۰۷  ۔  احتجاج طبرسی، ج ۲، ص ۲۴۴ و ۲۴۵  ترجمه ارشاد مفید، ج ۲، ص ۲۷۰ تا ۲۷۵  الاختصاص مفید، ص ۱۰۰)۔

 

  • انجمن عین الحیات= گروه طلاب المصطفی العالمیه

حضرت امام  محمدتقی علیہ السلام کی  اہم خصوصیات

انجمن عین الحیات= گروه طلاب المصطفی العالمیه | پنجشنبه, ۱۷ خرداد ۱۴۰۳، ۱۱:۱۸ ب.ظ

 

حضرت امام  محمدتقی علیہ السلام کی  اہم خصوصیات

تحریر: محمد علی ۔ متعلم جامعۃ المصطفی العالمیہ۔ قم ایران۔

آپ کی ولادت  رجب  کےدس  تاریخ   195 ہجری  مدینہ  شہر  میں  ہوئی  ،آپ کےوالد  کانام  امام  تھااور آپ کی والدہ کا نام سبیکہ  تھا،خود آپ کا نام  (محمد ) اور کنیت(ابو جعفر )  ہے اور  آپ کےمشہور القاب (جواد) (تقی) ہیں۔

آپ حضرت  امام رضاعلیہ السلام  کی شہادت کےبعد  امامت کے منصب پر فائز ہوئے جبکہ  بہت ہی دشوار  گھڑی تھی   پھر بھی  بڑی حسن  و سلوکی سے  اس  ذمہ داری کو نبھایا۔

امام  جواد علیہ السلام دو دلیلوں  کی وجہ  دوسرے  اماموں  کی بہ نسبت  بہت کم معروف تھے:

1۔ چھوٹے  اور کم عمر پانے کی وجہ سے جیساکہ  تاریخ میں ذکر ہواہے  آپ سال   کی عمر میں  امامت  پر فائز ہوئے  اور پچیس 25 سال کی عمر میں  شہید ہوگئے ۔ لیکن  وہ  جو کچھ  شیعہ  منابع میں ذکر ہواہے  اس  کےمطابق   امام  جو اد علیہ السلام   سےمنسوب معارف  کم نہیں ہیں ۔البتہ  شیعوں کےدرمیان  بہت کم بیان ہوئے  ہیں۔

2۔امام جواد علیہ السلام  ایسے زمانےمیں زندگی  گزارتے ہیں کہ جو تاریخ کا  پیچیدہ ترین  دور ہے اور ایسے مسائل سے روبروہوئے جو دوسرے  ائمہ  علیہم السلام کم ہوئے تھے۔امام جواد علیہ السلام  (مامون)او ر(معتصم ) عباسی کےزمانے میں  زندگی کررہے تھےکہ جس زمانہ میں حکومت عباسی  افول  کررہی تھی ۔مامون کےمرنےکےبعد  معتصم   تخت خلافت پر بیٹھا زندگی کو تنگ کردیا۔

آپ کےکچھ اخلاقی خصوصیات

1۔اخلاق حسنہ :حضرت  امام جواد علیہ السلام  بالکل اپنےجد  کےسیرت پر عمل کررہے تھے جس  کی خود قر آن  کریم نےحکم دیا ہے کہ مسلمان   حضرت پیغمبر اکرم کو اپنا نمونہ عمل قرار دیں۔

2۔بے انتہا علم:دوسری آپ کی خصوصیات تھی کہ آپ بےانتہا علم  کےمالک تھے جیساکہ آپ کےاجداد  صاحب  علم اور علم لدنی  کےمالک تھے یہ علم  آدم  سےخاتم  تک  کےانبیاء کی میراث ہے جوآپ کو ملی تھی۔

3۔تقوی او رپاکیزگی :حضرت  امام جواد علیہ السلام  بھی دوسرےاماموں کی طرح  تقوی او رپاکیزگی  میں کامل نمونہ تھے ۔آپ اپنے زمانےکا  سب سےزیادہ   متقی اور پرہیزگار  تھے  اور جہان اسلام کےلئے نمونہ عمل  تھے۔

4۔ادب و احترام: امام جواد علیہ السلام  سب   کا ادب  و احترام کیا کرتے تھے جس کی وجہ  سےمخالف اور دشمن بھی  آپ کا گرویدہ  ہوجایا کرتا تھا۔آپ شیعوں کےساتھ  بڑے مہربانی سےپیش آتےتھے۔

5۔حریت اور آزادی: سارےائمہ علیہم السلام کی طرح آپ بھی اس صفت کےحامل تھے آپ کسی بھی ظالم اور ستمگر کےآگےکبھی بھی  تسلیم نہیں ہوتے  تھے  اور اس  راستے  میں   سارے  سختیوں کو برداشت کرلیتے تھے ۔یہ ہم شیعوں کےلئے نمونہ ہے کہ  ہم بھی کسی وقت  ظلم وستم کےآگے سرتسلیم نہ کریں  اور آزادی  کےساتھ اپنے عقیدےاور مبانی  کو بیان کریں۔

  • انجمن عین الحیات= گروه طلاب المصطفی العالمیه

حضرت امام خمینی(رح) اور اہتمام عبادات

انجمن عین الحیات= گروه طلاب المصطفی العالمیه | دوشنبه, ۱۴ خرداد ۱۴۰۳، ۰۵:۵۶ ب.ظ

حضرت امام خمینی(رح) اوراہتمام عبادات 

تحریر : فیروز عباس۔ متعلم جامعۃ المصطفی العالمیہ۔ قم ایران

 

ہم یہاں پر حضرت امام خمینی(رح) کی عبادت کے اہتمام کے حوالے سے ۲ اہم یادگار واقعات کا ذکر کر رہے ہیں جو آپ  کی زندگی میں اہمیت کے حامل تھے اور ان واقعات کو ان کے چاہنے والوں  میں سے انکے قریبی افراد نے بیان کیے ہیں:

۱۔امام خمینی (رح)  کا وضو کا طریقہ

جب امام خمینی (رح) چاہتے تھے کہ وضو انجام دیں. تو بہت ہی زیادہ اس بات پر توجہ رکھتے تھے کہ پانی کم استعمال کریں. یعنی اسراف نہ ہو. امام خمینی (رح) کا توجہ دینا یہ جزئی ترین کاموں میں سے ہے۔ ھمیشہ جمعہ کی اذان سے پہلے. غسل جمعہ کرتے تھے. اور کبھی بھی امام خمینی رہ) کا غسل جمعہ ترک نہیں ہوا ہے. اور جب بھی امام وضو کرتے تھے تو وضو کے تمام اجزاء کو قبلہ کی طرف چہرہ کر کے انجام دیتے تھے، یہاں تک کہ اگر وضو خانہ قبلہ کی طرف نہیں ہوتا تھا تو ہاتھ میں پانی لے کر پانی کا نل بند کر کے قبلہ کی طرف ہو کر چہرہ پر پانی ڈالتے تھے، امام خمینی (رح)نے اپنے آپ سے یہ تعھد کیا تھا اور انکا اعتقاد اسلامی بھی یہی تھا اس بنا پر امام ہمیشہ کوشش کرتے کہ اسی پر عمل کریں، کہ امام خمینی رہ) فرماتے تھے. مثلا، اگر وضو کرنے کے وقت اپنے خانوادہ میں سے کسی شخص کو اس بات کی طرف تذکر دیتے تھے کہ پانی حد سے زیادہ مصرف نہ کرو، تو امام خود اس بات پر عمل کرتے تھے،، امام کے نزدیک افراد میں سے ایک کا بیان ہے کہ میں اس بارے میں ایک شاھد ہوں، اس نے اس بات کو بیان کیا ہے کہ، میرے بیٹے کے دوستوں میں سے ایک نے میرے بیٹے سے کہا کہ تبرک کیلئے امام خمینی رہ کے وضو کے پانی کا تھوڑا سا پانی مجھے دو تاکہ میں اس کو بیماری کیلئے شفا کا عنوان دوں، وہ شخص کہتا ہے کہ میرے بیٹے نے مجھ سے کہا کہ،، بابا میں نے ایک شیشی امام خمینی رہ کے وضو کے پانی کا تہیہ کیا، وہ شخص کہتا میں واقعا تعجب کیا، اس لئیے میں نے بہت بار دیکھا تھا امام کو وضو کرتے ہوئے کہ، اس قدر کم وہ اپنے ہاتھ پر پانی ڈالتے تھے کہ ان کے ہاتھ سے پانی زمین پر نہ گرے، وہ شخص اپنے بیٹے سے کہا، تم نے کیا. کیا اس نے کہا میں  ایک پیالی امام کے ہاتھ کے نیچے رکھ دیا، امام کےوضو کا پانی اس پیالی میں جمع ہو گیا، اس کے بعد میں نے اس پانی کو ایک دوا کی شیشی میں ڈال دیا،، یہ ہے امام خمینی رہ. جب وہ کسی کو تذکر کرتے ہیں کہ پانی اسراف نہ کرو، تو وہ خود اس بات پر عمل کرتے ہیں، اور دوسروں کیلئے نمونہ عمل ہیں۔ (پابہ پای آفتاب، ج١، ص٢٤٠)

2-نماز اول وقت

امام خمینی (رح) کی خصوصیتوں میں سے ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ امام خمینی رہ، نماز ہمیشہ اول وقت میں پڑھتے تھے، نافلہ کو بھی بہت اہمیت دیتے تھے، یہ خاصیت ان کے اندر جوانی سے ہی تھی ابھی ان کی عمر بیس سال سے زیادہ بھی نہیں تھی ان کے اندر اندر یہ خاصیت پائی جاتی تھی، امام کے بعض دوستوں نے نقل کیا ہے کہ، ہم لوگ پہلے یہ سوچتے تھے کہ خدا نہ کرے کہ یہ بس دیکھاوے کیلئے اول وقت نماز پڑھتے ہیں. تو امام کو آزمانے کیلئے ان کے دوستوں نے مشورہ کیا کہ اگر یہ کام دیکھاوا ہے تو ان کے آگے رکاوٹ بنیں. بہت بار امام کے دوستوں نے امام کا امتحان لیا، مثلا کبھی اول وقت نماز کھانے کیلئے دسترخوان لگادیتے تھے، یا کبھی سفر پر جانے کے وقت کو نماز کے اول وقت پر رکھتے تھے، اور انکا امتحان لیتے تھے، لیکن امام کہتے تھے آپ لوگ کھانا کھاؤ میں نماز پڑھتا ہوں، جوکچھ بچے گا میں کھالونگا، یا سفر پر جانے کے وقت کہتے تھے کہ تم لوگ جاؤ، میں بھی جاؤنگا اور آپ لوگوں تک پہونچ جاؤنگا، اسی طرح بہت ایسابہت سارے مسالہ کزرے. لیکن امام نہ صرف یہ کہ نماز کو اول وقت پر ترک نہ کیا بلکہ امام ہم سب سے بھی کہتے تھے کہ نماز اول وقت میں پڑھیں... ۔(پابہ پای آفتاب، ج٤. ص٢٠٧)

  • انجمن عین الحیات= گروه طلاب المصطفی العالمیه